اس کا نکاح بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسے تجدید نکاح کے بعد اپنے گھر لانا چاہیے تھا، لیکن اس نے بلاتجدید نکاح رجوع کیا اور اپنے گھر میں رکھا جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ پھر اس نے دوسری طلاق دے کر اسے میکے بھیج دیا،اب وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے، اس سلسلہ میں ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
٭ چونکہ پہلے تجدید نکاح کے بغیر وہ اسے اپنے گھر لے آیا تھا حالانکہ نکاح ختم ہونے کے بعد وہ عورت اس کی بیوی نہ تھی، اس لیے دوسری طلاق دینا لغو اور فضول ہے کیوں کہ جب وہ اس کی بیوی ہی نہیں تو وہ طلاق کا محل ہی نہیں۔
٭ اب نکاح جدید کے ساتھ رجوع ہو سکتا ہے جس کی حسب ذیل چار شرائط ہیں:
٭ عورت، اس عقد جدید پر رضامند ہو۔ ٭ حق مہر بھی نیا مقرر کیا جائے۔
٭ عورت کا ولی بھی اس کی اجازت دے۔ ٭ گواہ بھی موجود ہوں۔
ان چار شرائط کے ساتھ نکاح جدید سے گھر آباد کیا جا سکتا ہے، چونکہ وہ عورت ، اس کے گھر میں رہی ہے، اس لیے تجدید نکاح کے لیے اس بات کا معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کا رحم خالی ہے، اگر حمل ہے تو وضع حمل کے بعد نکاح ہو سکے گا۔ واللہ اعلم!
مہر کا حق دار کون؟
سوال: ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن کا حق مہر خود رکھ لیتے ہیں اور اسے اپنی ضروریات میں صرف کر لیتے ہیں، حق مہر کے متعلق شرعی حکم کیا ہے کہ کیا بیوی کے علاوہ کوئی دوسرا اسے استعمال کر سکتا ہے؟
جواب: دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے جو صرف اور صرف بیوی کو ہی ملنا چاہیے۔ کسی دوسرے کو اس کی اجازت کے بغیر اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر معاشرے کے کچھ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً﴾[1]
’’عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ واجبی طور پر عورت کو مہر ادا کرے، ہاں اگر بیوی اپنے خاوند کو اپنے مہر میں سے کچھ معاف کرتے ہوئے دیتی ہے تو خاوند اسے استعمال کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓا مَّرِيْٓ﴾[2]
’’اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر استعمال کر لو۔‘‘
حق مہر کے متعلق دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَئْااَتَاْخُذُوْنَه بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِيْنًا﴾[3]
|