ایسے حالات میں اگر عقیقہ مؤخر کر دیا جائے تو امید ہے کہ کوئی حرج نہیں ہو گا، نیز حدیث میں ہے: ’’ساتویں ،چودہویں اور اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے۔‘‘[1]
اگرچہ یہ روایت اسماعیل بن مسلم،ایک راوی کی وجہ سے ضعیف ہے تاہم علامہ البانی رحمہ اللہ نے مختلف شواہد کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔[2]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجبوری کے پیش نظر عقیقہ کو ساتویں دن سے مؤخر کیا جاسکتا ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ ساتویں دن سادگی کے ساتھ عقیقہ کر دیا جائے۔ واللہ اعلم!
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا
سوال: میرے پڑوسی عیسائی ہیں، کیا مجھے شرعی طور پر اجازت ہے کہ میں انہیں پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اپنی قربانی کا گوشت دوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: قربانی، تقرب الٰہی کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے بہتر ہے کہ قربانی کا گوشت صرف اہل اسلام کو ہی کھلایاجائے، اگر تالیف قلب مقصود ہے تو انہیں قربانی کا گوشت دینے میں چنداں حرج نہیں بشرطیکہ وہ اسلام کے ساتھ بغض و عناد نہ رکھتے ہوں، ویسے بھی پڑوس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ اپنے گھر آئے تو فرمایا: ’’کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت بھیجا ہے؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بات دو دفعہ دہرائی، مزید فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:
’’سیدنا جبریل مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کرنے کا مسلسل کہتے رہے حتی کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے میرا وارث بنا دیں گے۔‘‘[3]
اس حدیث کے پیش نظر عیسائی پڑوسی کو قربانی کا گوشت دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
رات کے وقت قربانی کرنا
سوال: ہمارے ہاں مشہور ہے کہ رات کو قربانی نہیں کرنا چاہیے، کیا اس کے متعلق احادیث میں کوئی ممانعت آئی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرآن کریم میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کے متعلق ﴿اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ﴾ [4] آیا ہے اور حدیث میں ’’ایام التشریق‘‘ کے الفاظ ہیں۔[5]
|