کے پردے اٹھا دئیے ہیں اور آج تجھے خوب نظر آ رہا ہے کہ وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جس کی خبر انبیاء علیہم السلام دیتے تھے اور اب تجھے وہ تمام باتیں ٹھیک نظر آ رہی ہیں جن سے تو جان بوجھ کر غافل بنا رہا۔‘‘
قارئین کرام! آیت کے مفہوم پر غور کریں، اس کا نظر کی تیزی کے ساتھ کیا تعلق ہے کہ اسے بینائی کے لیے بطور وظیفہ پڑھا جائے؟
ہمارے ہاں اس طرح کے دیگر دم اور وظیفے چلتے ہیں جنہیں جاہل عملیات والے اختیار کیے ہوتے ہیں۔ مثلاً:
٭ جائز او ر ناجائز اسقاط حمل کے لیے درج ذیل آیت دم، وظیفے یا تعویذ کے طور پر دی جاتی ہے: ﴿وَ اَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ﴾ (الانشقاق:۴) ’’اور جو کچھ زمین کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی۔‘‘
٭ بچوں کی پیدائش روکنے کے لیے درج ذیل آیت لکھ کر تعویذ لٹکانے کے لیے دیا جاتا ہے:
﴿ قِيْلَ يٰۤاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ ﴾[1]
’’حکم دیا گیا اے زمین! تو اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان اب تو تھم جا۔‘‘
آخر ان آیات کا اسقاط حمل اور افزائش نسل کو روکنے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس بناء پرہم کہتے ہیں کہ بیمار اور مصیبت زدہ حضرات ایسے جاہل عاملین سے ہوشیار رہیں، مبادا بیماری اور مصیبت دور کرتے کرتے اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ہمارے نزدیک اس طرح کے وظائف جہالت پر مبنی ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
میت کے لیے اجتماع اور اجتماعی دعا
سوال: ہمارے ہاں فوتگی کے تیسرے دن قل خوانی وغیرہ کو بدعت کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے علاقہ میں اسے بدعت کہنے والوں کے ہاں یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ میت کے مرنے کے تین چار دن بعد مسجد میں میت کے عزیز و اقارب اور دیگر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، پھر موت اور عذاب قبر کے متعلق خطاب ہوتا ہے، اس کے بعد میت کے لیے اجتماعی دعا کی جاتی ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں ایسا کرنے کی حیثیت واضح کریں۔
جواب: واضح رہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں کسی وقت بھی ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ صورت مسؤلہ میں جس رسم کا ذکر کیا گیا ہے کہ میت کے مرنے کے تین چار دن بعد مسجد میں اکٹھے ہونا اور تقریر کے بعد میت کے لیے اہتمام کے ساتھ اجتماعی دعا کرنا پھر کھانا کھانے کا بندوبست کرنا یہ سب رواجی چیزیں ہیں، شریعت میں ان کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی قرون اولیٰ میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسی باتوں سے اجتناب کرتے تھے۔ چنانچہ سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مخصوص مقام پر اہتمام کے ساتھ بیٹھے رہنے اور اہل میت کی طرف سے آنے والے مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنے کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘ [2]
|