’’اگر تم اسے اس اونٹ پر حج کرا دو تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہی ہے۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج فی سبیل اللہ میں شامل ہے اور سفرحج میں جانے والوں کے لیے زکوٰۃ فنڈ سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔
ان احادیث کی بناء پر جہاد اور حج کو فی سبیل اللہ میں شمار کرنا چاہیے اور اسے عام نہ کیا جائے۔ اس بناء پر اسلامی کتب کی نشر و اشاعت جو اصلاح معاشرہ کے لیے ہوں انہیں نفلی صدقات سے نشر کیا جائے۔ مال زکوٰۃ سے دینی کتب چھپواکر تقسیم کرنا محل نظر اور مشکوک عمل ہے، اس سے گریز کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
سودی رقم کو رفاہی کاموں میں خرچ کرنا
سوال: میں نے سود لینے دینے سے توبہ کر لی ہے لیکن بینک میں کافی سودی رقم پڑی ہے، کیا میں اس نیت سے وصول کر سکتا ہوں کہ اسے غریبوں،مسکینوں اور رفاہی کاموں میں صرف کر دیا جائے، کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی کریں۔
جواب: اسلام میں سود لینا دینا ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰۤوا ﴾[2]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔‘‘
صورت مسؤلہ میں سائل سودی رقم وصول نہ کرے، سود چونکہ حرام ہے اس لیے مسکینوں اور غریبوں کو دینے نیز رفاہی کاموں میں صرف کرنے کی نیت سے بھی وصول کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے لہٰذا اسے صدقہ و خیرات میں خرچ نہیں کیا جا سکتا۔
اس سلسلہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث حسب ذیل ہے:
’’جب کوئی بندہ حرام مال کماتا ہے، پھر اسے اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے باوجود اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور ایسے مال سے کیا گیا صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا، ایسا آدمی اپنے پیچھے آگ چھوڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو نیکی کے ذریعے ختم کرتا ہے، خبیث اشیاء ، خبیث اعمال کو نہیں مٹاتیں۔‘‘[3]
اس حدیث سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے کہ سودی رقم کو وصول نہ کیا جائے، بلکہ اسے بینک میں ہی پڑا رہنے دے۔ ہاں اگر کوئی بینک کے ناجائز تاوان کے نیچے دبا ہوا ہے تو ثواب کی نیت کیے بغیر اسے دیا جا سکتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’مال حرام
|