کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جزو ایمان ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت افزائی کا لباس پہنائیں گے۔‘‘[1]
محققین حدیث نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو احادیث صحیحہ میں نقل کیا ہے۔[2]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اسے قیامت کے دن مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے بایں الفاظ تعزیت کی تھی:
’’اللہ ہی کے لیے تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے ،اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کر کے اس کا اجر و ثواب لینا چاہیے۔‘‘[4]
مختلف احادیث کے پیش نظر تعزیت کے درج ذیل آداب ہیں:
٭ اہل میت سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کے لیے دعا خیر کی جائے اور انہیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔
٭ گھر والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کے لیے وقت او رمال کی قربانی دی جائے۔
٭ تعزیت کے لیے مناسب وقت کا انتخاب اور محدود مدت کے لیے ان کے ہاں ٹھہرا جائے۔
٭ کھانے پینے کے اوقات میں ان کے ہاں جانے سے پرہیز کیا جائے تاکہ وہ خواہ مخواہ تکلف میں نہ پڑیں۔
٭ وہاں بیٹھ کر لغو گفتگو نہ کی جائے اور سنت کے مطابق ان کے غم میں شریک ہو کر میت کے لیے دعا مغفرت کی جائے۔
٭ مروجہ طریقہ تعزیت سے گریز کریں جیسا کہ آنے والا ’’فاتحہ‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگواتا ہے۔
٭ وہاں فارغ نہ بیٹھیں بلکہ ذکر اور دعا و استغفار میں خود کومصروف رکھیں۔
قبر پر پھول کی پتیاں بکھیرنا
سوال: جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو وہاں قبروں پر گلاب کے پھول کی پتیاں بکھری ہوتی ہیں، نیز ان کے آس پاس چاول اور مسور کی دال بھی ڈالی ہوتی ہے، ایسا کیوں کیا جاتا ہے، کیا اس سے میت کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟
جواب: جب انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے ہر قسم کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، پھولوں کی پتیاں بکھیرنے کا مقصد صرف میت کو نفع پہنچانا ہے تو ایسا کرنا ایک فضول حرکت ہے اور قبر پر یا اس کے ارد گرد دال اور چاول ڈالنا
|