کی، لہٰذا یہ روایت قابل حجت نہیں، بہرحال زمین کو ٹھیکے پر دیا جا سکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم!
مال پر قبضے کی ایک صورت
سوال: میرا چاول خریدنے اور فروخت کرنے کا کاروبار ہے، میں ایک گڈز کمپنی کے ذریعے چاول اٹھاتا ہوں، جب وہ چاول لوڈ ہو جاتے ہیں تو میں انہیں آگے فروخت کر دیتا ہوں اور مال جب پہنچتا ہے تو خریدار کے گودام میں اتار دیتا ہوں۔ کیا شرعی اعتبار سے اس طرح کا کاروبار جائز ہے؟
جواب: شرعی طور پر مال کی خرید و فروخت کا یہ ایک اصول ہے کہ جب تک کوئی مال قبضہ میں نہ آ جائے اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت نہیں۔
ہمارے ہاں تاجر حضرات سودے پر سودا کرتے رہتے ہیں جب کہ اصل چیز جس کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہ ایک ہی جگہ کسی سٹور پر پڑی رہتی ہے، خریدار اسے نہیں دیکھتا، نہ اس کا وزن کرتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے قبضے میں لیتا ہے۔ سرمایہ دار اسے وہیں ایک دوسرے کو فروخت کرتے چلے جاتے ہیں، اسے دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی، کسی کو علم نہیں ہوتا کہ وہ چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے۔ یہی چیز جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت نے اس کا سدباب یہ کیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو خریدے تو اسے وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کرے اور پھر اسے فروخت کرے تاکہ مزدور کو مزدوری ملے اور لوگوں کو آسانی اور ارزانی سے رزق دستیاب ہو۔
چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اگر کوئی غلے کا ڈھیر خریدتا اور پھر وہیں فروخت کر دیتا تو اس پر اسے سزا دی جاتی تھی حتی کہ وہ اسے اپنی منزل پر لے جائے۔‘‘[1]
نیز سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی غلہ خرید لے تو جب تک اسے اپنے قبضے میں نہ لے لے فروخت نہ کرے۔‘‘[2]
اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ خرید کردہ چیز کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہیں کرنا چاہیے۔ قبضے کی شرط لگانے کا مقصد یہ ہے کہ مال کی جانچ پڑتال ہو جائے نیز خریدار چیز خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صدقہ کے غلے میں سے کچھ غلہ خریدا، قبضے میں لینے سے پہلے ہی مجھے اس میں منافع ملنے لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے قبضے میں لینے سے پہلے اسے مت فروخت کرو۔‘‘[3]
|