٭ وہ جانور جو ہمارے قابو میں ہیں جنہیں ہم ایک خاص طریقہ سے ذبح کر سکتے ہیں، اس قسم کے ذبح کو ’’ذبح اختیاری‘‘ کہا جاتا ہے، اسے حلق سے ذبح کرنا ہو گا۔
٭ وہ جانور جو ہمارے قابو میں نہیں مثلاً جنگلی جانور، ہرن وغیرہ یا گھریلو جانور جو بھاگ نکلے یا وہ جانور جو کسی تنگ جگہ میں گر جائے، اس قسم کے جانوروں کا ذبح ’’ذبح اضطراری‘‘ ہے اور ان کا تمام جسم ہی مقام ذبح ہے، اسے جسم کے کسی بھی حصہ سے ذبح کیا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک واقعہ پیش آیا کہ اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ ایک آدمی نے اسے تیر مارا تو اس نے اُسے روک لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان جانوروں میں بھی بدک کر بھاگنے والے ہوتے ہیں، جیسے دیگر وحشی جانور، ان جانوروں میں سے جو اس طرح کرے ، اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے۔[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو گھریلو جانور بے قابو ہو جائے اور وحشی بن جائے تو اسے شکار کی طرح نشانہ مار کر ذبح کیا جا سکتا ہے یا اسے زخمی کر کے قابو کر لیا جائے پھر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر گلے پر چھری پھیر کر اسے ذبح کر لیا جائے۔ بہرحال چھری اصل مقصود نہیں بلکہ ہر تیز دھاری دار آلہ سے ذبح کیا جاسکتا ہے، نیز جو جانور ہمارے قابو میں نہ ہو اس کے جسم کا ہر حصہ مقام ذبح ہے، جہاں سے جسم کو چھید کر کے خون بہایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پھر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
کیا قربانی کرنا دولت کا ضیاع ہے؟
سوال: عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے، منکرین حدیث قربانی کے عمل پر اعتراض کرتے ہیں کہ لاکھوں جانوروں کو ذبح کر کے پیسے کا ضیاع کیا جاتا ہے، بلکہ یہ جانوروں کی نسل کشی ہے۔ اگر یہ دولت رفاہی کاموں میں صرف کی جائے تو بہت لوگوں کا بھلا ہو گا۔ اس قسم کے اعتراضات کا جواب درکار ہے۔
جواب: قرآن کریم کا طالب علم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ قربانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک عظیم یاد گار ہے جسے ختم نہیں کیا گیا بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے اسے باقی رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ تَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ﴾[2]
’’ہم نے اسے بعد میں آنے والوں کے لیے باقی رکھا۔‘‘
جب قربانی کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد آنے والوں کے لیے باقی رکھا ہے اور وہ اسے جذبہ اخلاص اور محبت و شوق سے بجا لاتے ہیں تو اسے دولت کا ضیاع، حیوانات کی نسل کشی قرار دینا چہ معنی دارد؟
یہ قربانی، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|