وصیت و وراثت
مسئلہ وراثت
سوال: ہمارے ایک عزیز فوت ہوئے ہیں، اس کی کوئی اولاد نہ تھی، پسماندگان میں والد، والدہ، بیوی، ایک بھائی اور ایک بہن ہے۔ اس کی جائیداد بارہ لاکھ ہے، اسے ورثاء میں کیسے تقسیم کیا جائے گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دیں۔
جواب: مرحوم لا ولد فوت ہوا ہے، اس کی جائیداد سے چوتھا حصہ اس کی بیوہ کو ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾[1]
’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کو تمہارے ترکہ میں سے 1/4حصہ ملے گا۔‘‘
متعدد بہن بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو کل جائیداد میں سے چھٹا حصہ ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾[2]
’’اگر سب کے بہن بھائی ہوں تو ماں کے لیے1/6ہے۔‘‘
باپ عصبہ ہے، مقررہ حصے نکالنے کے بعد جو باقی بچے گا وہ باپ کو عصبہ ہونے کی حیثیت سے مل جائے گا۔
حدیث میں ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘[3]
باپ کی موجودگی میں بہن بھائی محروم ہیں، انہیں میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا جاتا ہے۔ کلالہ وہ میت ہوتی ہے جس کی اصل یا فرع موجود نہ ہو۔ سہولت کے پیش نظر متروکہ جائیداد کے بارہ حصے کر دئیے جائیں۔ اس میں سے دو حصے والدہ کو، تین بیوہ کو اور باقی سات والد کو دئیے جائیں۔ چونکہ کل جائیداد بارہ لاکھ ہے اس لیے دو لاکھ والدہ، تین لاکھ بیوہ اور سات لاکھ والد کو ملیں گے۔ واللہ اعلم!
بیوہ کا حق
سوال: ہمارے بھائی فوت ہو گئے ہیں، ان کی بیوہ نے آگے نکاح کر لیا ہے، ایسے حالات میں وہ بھائی کی جائیداد سے
|