٭ بیوہ کو کل ترکہ سے آٹھواں حصہ دیا جائے، کیوں کہ میت کی اولاد موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ﴾
’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ [1]
٭ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا ملے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾[2]
’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے۔‘‘
سہولت کے پیش نظر کل ترکہ کے 8 حصے کر لیے جائیں، پھر ان سے آٹھواں حصہ یعنی ایک بیوہ کو اور باقی سات حصے اس طرح تقسیم ہوں گے کہ دو، دو حصے فی لڑکا اور ایک،ایک حصہ لڑکی کو ملے۔ چونکہ میت کی جائیداد چوبیس لاکھ روپے ہے، چوبیس کو آٹھ پر تقسیم کرنے سے ایک حصہ تین لاکھ بنتا ہے، اس طرح ورثاء کے حصوں کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔ مثلاً
بیوہ بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی میزان
تین لاکھ چھ لاکھ چھ لاکھ تین لاکھ تین لاکھ تین لاکھ چوبیس لاکھ
بیٹی کے لیے وصیت
سوال: میرے باپ نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد دکان کا کرایہ میری بیٹی وصول کرے گی، باپ کی وفات کے بعد اس بیٹی کو جائیداد سے پورا پورا حصہ دیا گیا ہے، وصیت کے مطابق وہ دکان کا کرایہ وصول کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے، کیا شرعاً اس کا حق بنتا ہے کہ وہ کرایہ وصول کرے؟
جواب: شریعت اسلامیہ میں وصیت کا ایک مستقل ضابطہ ہے، اس کے مطابق وصیت پر عمل کیا جا سکتا ہے اس ضابطہ کی تین شرائط حسب ذیل ہیں:
وصیت کسی ناجائز کام کی نہ ہو۔مثلاً اگر وصیت کرتا ہے کہ میرے بعد کوئی مندر یا گرجا گھر تعمیر کر دیا جائے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث میں ہے: ’’نافرمانی کے کاموں پر اطاعت نہیں ہو گی بلکہ اطاعت تو صرف کارہائے خیر میں ہے۔‘‘[3]
زیادہ سے زیادہ کل جائیداد سے ایک تہائی کی وصیت قابل عمل ہو گی۔
جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا:
|