دے کر پھر پوتی کو چھٹا حصہ دیا اور فرمایا کہ یہ ثلثین کی تکمیل ہے۔[1]
ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے بھائی کو دے دیا جائے۔
حدیث میں ہے:
’’مقررہ حصہ داروں کو حصے دے کر جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کا ہے۔‘‘[2]
سہولت کے پیش نظر جائیداد کے چھے حصے کر لیے جائیں، ان میں سے نصف یعنی تین حصے بیٹی کو، چھٹا حصہ یعنی ایک پوتی کو (اس طرح 4=1+3) دو تہائی لڑکیوں کو مل جائے گا اور باقی دو حصے بھائی کو دے دئیے جائیں۔ واللہ اعلم!
منشیات کا کاروبار
سوال: ہمارے ہاں منشیات کا کاروبار بہت عروج پر ہے، بھنگ، چرس اور افیون بیرون ملک سپلائی کی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اسلام نے ہر نشہ آور چیز اور جسم کو سن کر دینے والی اشیاء سے منع کیا ہے خواہ وہ کسی چیز سے بھی تیار کی جائے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نشہ آور اور سستی لانے (سن کر دینے) والی اشیاء سے منع کیا ہے۔[3]
حضرت دیلم حمیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم سرد علاقے میں رہنے والے ہیں، ہمیں وہاں بہت مشقت کے ساتھ کام کرنا پڑتے ہیں، ہم اس گندم سے ایک مشروب تیار کرتے ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنے کام کاج میں طاقت حاصل کرتے ہیں اور سردی سے بھی دفاع کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ وہ مشروب نشہ آور ہے؟
میں نے عرض کیا ہاں۔
آپ نے فرمایا: ایسے مشروب سے اجتناب کرو۔
میں نے عرض کیا کہ ہمارے وہاں کے باشندے اسے ترک نہیں کریں گے۔
آپ نے فرمایا: اگر وہ نہ چھوڑیں تو اس پر ان سے قتال کرو۔[4]
سوال میں جن منشیات (بھنگ، چرس اور افیون) کا ذکر کیا گیا ہے وہ نشہ آور اور انسان کو وقتی طور پر کھڑا کر دیتی ہیں، اس میں چستی آ جاتی ہے لیکن ا ن کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ ہماری اکثریت اس کی عادی ہے لیکن اس کا استعمال صراحتاً اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ اس بناء پر نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت، بیرون ملک سمگلنگ کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ شریعت میں اس کے اسباب و سائل ، مفاسد کا حکم رکھتے ہیں، ان کا روکنا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دور حاضر میں
|