یا کہنا کہ آپ کے چہرے سے برکت ٹپکتی ہے، کیا اس قسم کے الفاظ کہنے کی شرعاً اجازت ہے؟
جواب: برکت کا معنی بڑھوتری اور اضافہ ہے، اس کی دو اقسام ہیں:
٭ حسی:… زیادتی اور اضافہ نظر آئے۔
٭ معنوی:… ایسی بڑھوتری جو نظر نہ آئے۔
ان دونوں اقسام کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے، یعنی ہر قسم کی برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اسے کسی انسان کی طرف بھی منسوب کر دیا جاتا ہے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دوران سفر ہار گم ہونے پر تیمم کی آیات نازل ہوئیں تو سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے آل ابی بکر! یہ آپ کی کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘[1]
جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ (بزرگوں) کا آنا ہمارے لیے باعث برکت ہے، ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ برکت، کسی بزرگ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ذاتی طور پر برکت تقسیم کر رہا ہے، بلکہ ان الفاظ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ (بزرگوں) کے آنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی برکت حاصل ہوگی۔
البتہ آپ (بزرگ) مجسم برکت ہیں یا اس قسم کے دیگر الفاظ کا استعمال محل نظر ہے۔
عام طور پر طلب برکت کے تین ذرائع ہیں جن کی وضاحت درج ذیل ہے:
٭ کسی معلوم شرعی امر کے ساتھ برکت طلب کرنا۔ مثلاً قرآن کے ساتھ برکت طلب کرنا، یعنی اس پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭ کسی معلوم حسی امر کے ساتھ برکت طلب کرنا۔ مثلاً کسی نیک پارسا بزرگ کی دعاؤں سے برکت حاصل کرنا، اللہ تعالیٰ بعض اوقات نیک لوگوں کی دعا سے امور خیر جاری کر دیتا ہے۔
٭ کسی موہوم امر کے ساتھ برکت حاصل کرنا۔ مثلاً کسی شعبدہ بازی کی حرکات سے متاثر ہو کر انسان ان سے برکت کا طلب گار ہوتا ہے، اس قسم سے برکت کا حصول باطل اور حرام ہے۔ باطل یا صحیح برکت کی پہچان یہ ہے کہ اگر کسی کا تعلق شرعی احکام سے ہے اور وہ سنت کا متبع نیز وہ حلال و حرام کی تمیز کرنے والا ہے تو اس کی دعاؤں سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے اور اگر اس کے برعکس کوئی شخص کتاب وسنت کے مخالف ہے اور باطل امور کی دعوت دیتا ہے تو اس کی حرکات سے متاثر ہو کر برکت طلب کرنا غلط ہے۔ واللہ اعلم
اہل بدعت کا نیا شوشہ
سوال: ہمارے ہاں اہل بدعت نے قرآن خوانی کی رسم کو جائز قرار دینے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ جس
|