باڑی میں مگن ہوجاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دیں گے اور یہ ذلت اس وقت تک تمہارا مقدر رہے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے۔‘‘[1]
اسی طرح ایک عورت نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ مجھ سے زید بن ارقم نے ایک غلام آٹھ سو درہم میں ادھار خریدا ہے پھر وہی غلام میں نے چھ صد درہم میں ان سے نقد قیمت ادا کر کے خرید لیا ہے۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’تم نے بہت بری خرید و فروخت کی ہے۔‘‘[2]
بہر حال ایک چیز کا کسی سے ادھار خریدنا پھر وہی چیز اصل مالک کو کم قیمت پر نقد فروخت کر دینا بیع عینہ کہلاتا ہے۔ کیوں کہ اس میں سود کی شکل پائی جاتی ہے۔ سوال میں ذکر کردہ معاملہ بھی اسی طرح کا ہے لہٰذا یہ ناجائز اور حرام ہے۔ واللہ اعلم!
گروی شدہ مکان میں رہائش رکھنا
سوال: میں نے کسی آدمی سے کچھ قرض لیا ہے اور اپنا مکان اس کے ہاں گروی رکھا ہے، کیا وہ آدمی جسے مکان دیا گیا ہے، اس میں رہائش رکھ سکتا ہے؟
جواب: کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز حق دار کے پاس رکھنے کو گروی کہا جاتا ہے۔ جب قیمت یا قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کے لیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ قرضے یا ادھار کی قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’تو ایسی سرزمین (عراق) میں رہتا ہے جہاں سود کی وباء عام ہے، لہٰذا اگر تیرا کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہے تو اس سے توڑی یا چارے کا گٹھا یا جو وغیرہ بطور ہدیہ قبول نہ کرنا کیوں کہ یہ سود ہے۔‘‘[3]
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرض کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حق دار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’سواری کا جانور اگر گروی ہے تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہے تو خرچ کے عوض اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے، سوار ہونے والے اور دودھ پینے والے کے ذمے اس کا خرچہ ہے۔‘‘[4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت
|