بیٹیاں یعنی مرحوم کے بھتیجے اور بھتیجیاں موجود ہیں، کیا اس کے ترکہ سے بھائی کی اولاد کو حصہ ملتا ہے؟
جواب: مرنے والے کے ذاتی اخراجات، قرض اور وصیت کے نفاذ کے بعد جو مال بچے عصبات کو ملتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں مرحوم کی بیوی اصحاب الفرائض سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ﴾[1]
’’بیویاں تمہارے ترکہ سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، اور تمہارے صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘
اس میں بھتیجیاں شامل نہیں ہوں گی، اس پر تمام اہل علم کا جماع ہے کیوں کہ چار افراد اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ بیٹا… اپنی بہنوں کو عصبہ بناتا ہے، یعنی وہ اس کے ساتھ جائیداد میں شریک ہوتی ہیں۔
٭ پوتا… اپنی بہنوں کو عصبہ بناتا ہے، اس کے ساتھ اس کی بہنیں بھی شریک ہوں گے۔
٭ حقیقی بھائی اپنی بہنوں کو عصبہ بناتا ہے، انہیں بھی حصہ دیا جائے گا۔
٭ پدری بھائی، اپنی بہنوں کو عصبہ بناتا ہے، وہ اس کے ساتھ وراثت میں حصہ پائیں گے، البتہ ان میں تقسیم کی نسبت دو ایک کی ہو گی، یعنی مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔
اس وضاحت کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں جائیداد کے چار حصے کر لیے جائیں، ان میں سے ایک حصہ بیوہ کو اور باقی اس کے بھتیجوں کو مل جائے گا، بھتیجیاں اس سے محروم ہیں۔ واللہ اعلم!
وراثت کا مسئلہ
سوال: میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں، پسماندگان میں ان کی بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کی کل جائیداد تقریباً چوبیس لاکھ روپیہ ہے، ہر وارث کا کتنا حصہ ہے؟ کتاب و سنت کے مطابق اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: تقسیم ترکہ سے پہلے تین مراحل ایسے ہیں جن سے ترکہ نے گزرنا ہوتا ہے، وہ حسب ذیل ہیں:
٭ تجہیز و تکفین… اگر کسی مرنے والے کے کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ سے مناسب انداز میں کفن و دفن کا انتظام کیا جائے۔
٭ قرض… اس کے بعد میت کے ذمے جو قرض ہو اسے ادا کیا جائے، خواہ اس کی ادائیگی میں تمام ترکہ صرف ہو جائے۔
٭ وصیت… میت کی جائز وصیت کو پورا کیا جائے بشرطیکہ وہ1/3سے زائد نہ ہو اور نہ ہی کسی شرعی وارث کے لیے ہو۔
ان تین مراحل سے گزرنے کے بعد ترکہ تقسیم ہو گا۔ صورت مسؤلہ میں تقسیم بایں طور پر ہوگی:
|