جواب: نکاح کے بعد خاوند کو تین طلاق دینے کا اختیار ہے۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے کہ اس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سائل کے والد نے طلاق کے متعلق اپنے دو اختیارات کو استعمال کر لیا، اب تیسرے اختیار کو واضح طور پر نہیں بلکہ کنایہ کی شکل میں استعمال کیا ہے، واضح رہے کہ طلاق کی دو اقسام ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ صریح طلاق… واضح اور دو ٹوک انداز میں لفظ طلاق استعمال کیا جائے، اس صورت میں طلاق ہو جاتی ہے، انسان کی نیت وغیرہ کو نہیں دیکھا جا تا، اگر مذاق کے طور پر بھی اس لفظ کو استعمال کیا جائے تو بھی طلاق ہو جاتی ہے تاہم اگر بھول کر یا غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے یہ لفظ نکل گیا، تو ایسا کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔
٭ کنائی طلاق… لفظ طلاق دو ٹوک انداز میں نہ کہا جائے بلکہ اشارے یا کنایہ سے کام لیا گیا ہو۔ مثلاً میری طرف سے تو آزاد ہے، میری طرف سے تو فارغ ہے، تو اپنے میکے چلی جاؤ، میں تجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا، ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہو گی بصورت دیگر طلاق نہیں ہو گی، کیوں کہ بعض اوقات انسان اپنی بیوی کا دماغ درست کرنے کے لیے اس قسم کے الفاظ بطور دھمکی استعمال کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی منکوحہ ’’ابنتہ جون‘‘ کو بایں الفاظ طلاق دی تھی کہ ’’تو اپنے گھر چلی جا۔‘‘[1]
لیکن مذکورہ الفاظ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کہے تھے اور ان کا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا، اس لیے انہیں طلاق شمار نہیں کیا گیا۔[2]
صورت مسؤلہ میں سائل کے والد نے اپنی بیوی سے کہا ’’تو آزاد ہے‘‘ چونکہ ستر سالہ بزرگ نے پہلے دو طلاقیں وقفے وقفے سے دی ہیں اور ان سے رجوع بھی کر لیا ہے، آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں یہ الفاظ کہے ہیں، لیکن وضاحت کر دی ہے کہ میرا مقصد طلاق دینے کا نہیں تھا بلکہ میں نے یہ الفاظ اس ارادے سے کہے تھے کہ اگر تم نے میری خدمت نہیں کرنی تو اپنے گھر کے کام کاج کے لیے تم آزاد ہو، اس وضاحت کے بعد ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ الفاظ طلاق کے لیے نہیں ہیں۔ اس وضاحت کے باوجود ہم ستر سالہ بزرگ سے یہ کہنا چاہتے ہیں: ’’بزرگو! آپ نے قبل ازیں دو دفعہ حق طلاق استعمال کر لیا ہے ، آئندہ کے لیے بریک پر پاؤں رکھ کر زندگی کے ایام پورے کریں، اگرچہ اس عمر میں انسان کی عقل و فکر کافی حد تک زوال پذیر ہوتی ہے، آپ کے پاس آخری فیصلہ کن اختیار باقی ہے، ایسا نہ ہو کہ آپ اسے دیدہ دانستہ دو ٹوک الفاظ میں استعمال کریں پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔‘‘ واللہ اعلم!
عقد نکاح کا خود بخود ختم ہونا
سوال: میں ساؤتھ افریقہ میں ملازمت کرتا ہوں، چند دن کی چھٹی پر اپنے ملک پاکستان آیا، یہاں آ کر میں نے شادی
|