ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جس نے کسی ایسی چیز کی نذر مانی جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کے کفارہ کی طرح ہے۔‘‘[1]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے نذر مانی تھی کہ وہ پیدل حج کرے گی تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’وہ سوار ہو کر حج کرے یا اپنی نذر کا کفارہ دے دے۔‘‘2[2]
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلایا جائے یا انہیں لباس دیا جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے جو ان کی استطاعت نہیں رکھتا وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔‘‘[3]
صورت مسؤلہ میں اس وضاحت کے مطابق عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم!
محبت کا علاج
سوال: میں تعلیم یافتہ غیر شادی شدہ خاتون ہوں، میں اپنے دل میں ایک پابند شریعت لڑکے کے متعلق نرم گوشہ رکھتی ہوں اور اس سے شادی کی خواہش مند ہوں، لیکن مصنوعی معاشرتی دیواریں اس خواہش کے آگے کھڑی ہیں، اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں۔
جواب: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو معاشرے کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کریں اور ان کی دنیا بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت سنوارنے کی بھی سعی کریں بلکہ اسے ہر کام پر ترجیح دیں۔ اگر حادثاتی طور پر ان کی کسی سے محبت ہو جاتی ہے اور اس محبت میں کوئی دینی نقصان نہ ہو تو ان کے جذبات کا احترام کریں کیوں کہ کسی سے محبت اور نفرت دونوں غیر اختیاری ہوتی ہیں۔ انہیں مختلف حربوں سے دبانے کی بجائے ان کا رخ صحیح سمت کی طرف پھیر دینا چاہیے تاکہ ان کا رخ شرعی ممنوعات کی طرف نہ ہو جائے۔ اگر کسی مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی طرف میلان ہو جاتا ہے تو ناجائز تعلقات قائم کرنے کی بجائے نکاح کا تعلق قائم کر لینا بہتر ہے۔ دل میں نرم گوشہ رکھنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں بلکہ وہ اپنے والدین کو اعتماد میں لیں۔ نکاح کی دیگر شرائط یعنی ولی کی اجازت، حق مہر، ایجاب و قبول اور گواہوں کی موجودگی کا اہتمام بھی کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’آپس میں محبت رکھنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔‘‘[4]
احادیث میں اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا، یا رسول اللہ! میرے زیر نگرانی ایک یتیم لڑکی پرورش پارہی ہے، اس کے لیے دو رشتے آئے ہیں، ان میں سے ایک مال دار شخص ہے اور دوسرا فقیر بے نوا کا، ہماری خواہش ہے کہ اس کا نکاح مال دار سے کریں لیکن اس کا میلان تنگدست کی
|