بیوی کی ماں یعنی ساس کے علاوہ اس کی نانی وغیرہ بھی حرام ہو جاتی ہے اور یہ حرمت مجرد نکاح کرنے سے آجاتی ہے خواہ رخصتی نہ بھی ہو۔
٭ ربیبہ یعنی بیوی کی پہلے خاوند سے بیٹی، اس کی حرمت کے لیے ضروری ہے کہ سوتیلا باپ، اپنی بیوی سے ہم بستری کر چکا ہو، صرف نکاح کرنے سے حرمت نہیں آئے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾[1]
’’اور (تم پر حرام ہیں) تمہاری پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم ہم بستر ہو چکے ہو اور اگر تم نے ہم بستری نہیں کی تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
٭ بیٹے کی بیوی یعنی بہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ﴾[2]
’’اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں۔‘‘
اس میں پوتوں کی بیویاں بھی شامل ہیں۔
عورت صرف عقد نکاح کی بناء پر مرد کی بیوی بن جاتی ہے، جب کسی عورت کا نکاح ہو جاتا ہے تو خاوند کے باپ پر وہ حرام ہو جاتی ہے، خواہ وہ اسے طلاق ہی کیوں نہ دے دے۔
صورت مسؤلہ میں جب عورت کا نکاح ہوا تو خاوند کے باپ سے پردہ ختم ہو جاتا ہے، یہ تعلق دائمی طور پر قائم رہتا ہے، خواہ اس کا خاوند فوت ہو جائے یا وہ اسے طلاق دے دے۔ اس بناء پر سابقہ شوہر کا باپ، اس کا محرم ہے، اس سے نکاح نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس سے پردہ کرنے کی ضرورت ہے۔ (واللہ اعلم)
غیبت کی ایک جائز صورت
سوال: ہم عام طور پر اپنی مجالس میں حکمرانوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جبکہ غیبت سے متعلق بہت وعید آئی ہے، ہمارا اس طرح حکمرانوں کو برا بھلا کہنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟
جواب: غیبت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًااَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾[3]
|