اس حدیث میں پانی سے مراد دریا، بارش اور چشمے کا پانی ہے، اس قسم کے پانی میں تمام مسلمان برابر کا حق رکھتے ہیں، ہاں اگر کسی نے تالاب بنا کر اس میں پانی جمع کیا ہے یا اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھدوایا، نلکا اور ٹیوب ویل لگوایا ہے تو وہ اس پانی کا مالک ہے۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ فالتو پانی سے کسی کو منع نہ کرے۔
ہمارے رجحان کے مطابق پانی کی درج ذیل تین اقسام ہیں، اور ہر ایک کے احکام مختلف ہیں:
۱: وہ پانی جس کا کوئی مالک نہیں ہوتا بلکہ تمام لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں جیسا کہ دریاؤں کا پانی ہے، اس سے خود پیئے، اپنے حیوانات کو پلائے لیکن دوسروں کو اس سے منع نہ کرے۔
۲: وہ چشمہ جس کا امام وقت کسی کو مالک بنا دے، وہ اس کا پانی اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کر سکتا ہے، اس کے متعلق وصیت بھی کر سکتا ہے۔
۳: جو پانی برتنوں، ٹینکوں اور مشکیزوں میں محفوظ کر لیا جائے اس میں کسی دوسرے کو حق نہیں، اگر کسی نے ضائع کیا تو اس کا تاوان دینا ہوگا۔
صورت مسؤلہ میں ٹیوب ویل کا انسان مالک ہے وہ اس کے پانی کو فروخت کر سکتا ہے کیوں کہ اس پانی پر اخراجات صرف ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم!
آلات الیکٹرونک میڈیا کی خرید و فروخت
سوال: دور حاضر میں الیکٹرونک میڈیا کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس میں ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون، پروجیکٹر، ڈش اور میموری کارڈ وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے، کیا ان کی خرید و فروخت جائز ہے اور ان کی مرمت کر کے اجرت لینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اشیائے صرف کی دو اقسام ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ ایسی اشیاء جو ذاتی طور پر ناجائز اور حرام ہیں، انہیں ہر صورت میں استعمال کرنا ناجائز ہے خواہ وہ بظاہر اچھے مقاصد کے لیے ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً آلات موسیقی، شراب کی جملہ اقسام اور سگریٹ، بیڑی، بھنگ، چرس وغیرہ۔ یہ تمام اشیاء ذاتی طور پر احرام ہیں اور ان کا استعمال بھی ناجائز ہے۔
٭ ایسی اشیاء جو ذاتی طور پر حرام یا ناجائز نہیں بلکہ شرعی حکم ان کے استعمال پر ہوتا ہے۔ جیسے آلات حرب مثلاً بندوق یا
کلاشنکوف وغیرہ، اگر انہیں جہاد کے لیے استعمال کیا جائے تو باعث ثواب، اگر ذاتی طور پر اپنے بچاؤ کے لیے استعمال کیا جائے تو جائز اور اگر انہیں تخریب کاری یا دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے تو ناجائز اور حرام ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے متعلق فرمایا ہے:
’’گھوڑے تین قسم کے ہیں، کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ، کسی کے لیے بچاؤ کا سبب اور کسی کے لیے گناہ کا
|