’’نذر، تقدیر کو نہیں بدل سکتی، اس کی وجہ سے صرف بخیل سے کچھ مال نکالا جاتا ہے۔‘‘[1]
بہر حال اگر کوئی مشروط نذر مانتا ہے تو اسے کام پورا ہونے پر بجا لانا ضروری ہوتا ہے، تاہم اگر کوئی انسان اس طرح نذر مانتا ہے پھر دیکھتا ہے کہ کوئی دوسری چیز اس سے افضل اور اس کی ضرورت زیادہ ہے تو اس صورت میں جہت بدلی جا سکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں نوافل ادا کروں گا۔
اس پر آپ نے فرمایا: ’’تم بیت اللہ میں نوافل پڑھ لو۔‘‘
اس آدمی نے پھر اپنی بات دہرائی تو آپ نے وہی جواب دیا، اس نے تیسری مرتبہ اپنی بات کا اعادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’پھر جیسے تیری مرضی ہے، اس کے مطابق کر لے۔‘‘[2]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ادنیٰ درجے کی نذر کو اگر اعلیٰ درجے کی نذر سے بدل لے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
صورت مسؤلہ میں اگر مسجد میں نلکے کی ضرورت نہیں لیکن پڑوسی اس کا زیادہ حق دار ہے تو پڑوسی کے گھر میں واٹر پمپ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ امید ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم!
باپ پر خرچ کرنا
سوال: میرا بیٹا سرکاری ملازم ہے اور معقول تنخواہ لیتا ہے، اس کے علاوہ اسے سرکاری طور پر بہت سی مراعات بھی حاصل ہیں، لیکن وہ مجھے کچھ نہیں دیتا جب کہ میں ضرورت مند ہوں، اس سلسلہ میں میرے حقوق کی وضاحت کریں۔
جواب: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ایک اہم فریضہ ہے، یہ فریضہ خدمت گزاری اور ان پر خرچ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ بیٹا اگر شادی شدہ ہے تو اپنے ضرورت مند والد کو اس قدر دے کہ وہ کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو، باپ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت بیٹے سے مال کا مطالبہ کرے۔
کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’بلاشبہ پاکیزہ مال جسے تم کھاتے ہو وہ ہے جو تم نے کھایا اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے۔‘‘[3]
اس حدیث کی روشنی میں بیٹے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ضرورت مند والد کی ضروریات کو پورا کرے خواہ بیٹا شادی شدہ کیوں نہ ہو اور اس پر اپنے خاندان کی کفالت کرنا بھی ہو۔ قرآن کریم نے کافر والدین سے بھی دنیاوی معاملات میں حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|