2 4 6 8
6 8 4 2
8 6 2 4
4 2 8 6
ہمارے نزدیک ایسے تعویذات جو حروف یا اعداد کی شکل میں ہوں، یہ تمام جادو کی اقسام ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے نقش ہرگز عمل میں نہ لائیں کیوں کہ یہ سب ایمان کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم
مزاروں کے در و دیوار کو چو منا
سوال :میری ایک قبر کے مجاور سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا کہ جب بیت اللہ میں لگے ہوئے حجر اسود کو چوما جا سکتا ہے تو بزرگوں کی قبروں پر لگے ہوئے پتھروں کو کیوں نہیں چوما جا سکتا؟ اس کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی ڈالیں۔
جواب: اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا اور قبے بنانا ہی خلاف شرع ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے، اس پر عمارت تعمیر کرنے اور اس پر (مجاور بن کر) بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔[1]
دوسری بات یہ ہے کہ حجر اسود قابل تکریم اس لیے ہے کہ یہ دنیاوی پہاڑوں کا نہیں بلکہ جنت سے آیا ہوا پتھر ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حجر اسود جنت کا پتھر ہے، یہ برف سے زیادہ سفید تھا لیکن ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔‘‘[2]
نیز سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن حجر اسود کے دو ہونٹ اور زبان ہوگی اور جس نے اخلاص نیت سے اسے بوسہ دیا ہوگا اس کے متعلق یہ پتھر حق پر ہونے کی گواہی دے گا۔[3]
تیسری بات یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی صرف اتباع سنت کی نیت سے حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔ جیسا کہ ان کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ حجر کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘[4]
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ تمام مسلمان حجر اسود کو اتباع سنت کے جذبہ سے بوسہ دیتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ، ان کی زمین اور ان کے در و دیوار کو بوسہ دینا، انہیں چومنا بدعت اور جہالت کے کام ہیں۔ اہل اسلام حجر اسود کی تعظیم بصورت استلام کرتے ہیں وہ صرف اس بناء پر ہے کہ مذہب اسلام کی حقانیت پر یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہزاروں سال کے انقلابات ختم نہ کر سکے جبکہ یہ مرتبہ مزاروں پر رکھے ہوئے پتھروں کا نہیں بلکہ یہ تو سراسر
|