’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘[1]
کچھ اہل علم حدیث میں عدل و انصاف سے مراد ضابطہ میراث لیتے ہیں، یہ معنی سرا سر غلط ہے کیوں کہ مساوات کا یہ معنی قطعاً نہیں بلکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کے خلاف ہے:
’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان برابری کیا کرو، اگر میں کسی کو زیادہ دینا چاہتا تو عورتیں اس بات کی زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ دیا جائے۔‘‘[2]
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والد اندیشہ فساد کے پیش نظر اپنی زندگی میں تمام جائیداد تقسیم کر دیتا ہے، پھر وہ خود اپنے بچوں کا دست نگر بن جاتا ہے اور بچے اس کے ساتھ بہت ہی ناگفتہ بہ سلوک کرتے ہیں۔ اگر جائیداد باپ کے ہاتھ میں ہوگی تو کم از کم بچوں کی بدسلوکی سے تو محفوظ رہے گا۔
٭ والد کے ذمے یہ از حد ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات کو پوراکرے، اس میں قطعاً مساوات نہیں ہو سکتی، کیوں کہ کسی بچے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے،اور کسی کی کم ہوتی ہے، حتی کہ شیر خوار کی ضرورت صرف دودھ پینا ہے، لیکن ضروریات سے تجاوز کر کے فضولیات کو پورا کرنا گناہ ہے۔
ہمارے نزدیک اپنی زندگی میں پوری جائیداد تقسیم کرنا فضولیات ہے، اس سے گریز کرنا چاہیے۔
بہرحال میراث انسان کے مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندہ لوگوں کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، نیز والدین یا اولاد میں سے کون دوسرے کا وارث بنے گا، اس بات کا علم اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں، البتہ والد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ محدود پیمانے پر اپنی اولاد کو عطیہ دے اور عطیہ دیتے وقت سابقہ شرائط کو ملحوظ رکھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ عطیہ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا مگر دور حاضر کی نسل خود کمانے کی بجائے والد کو تقسیم جائیداد پر مجبور کرتی ہے اور اگر والد تقسیم نہیں کرتا تو اسے حیلے بہانے سے تنگ کیا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا نافرمانی بھی ہے اور ناحق دوسرے کا مال کھانا بھی ہے۔ صورت مسؤلہ میں بیٹے کا باپ کی زندگی میں اپنے ’’شرعی حق‘‘ کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شرعی حق بنتا ہے۔ واللہ اعلم!
بیٹیوں کو چھوڑ کر صرف بیٹوں کو کاروبار ہبہ کرنا
سوال: میرے والد کی دو بیویاں، نو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں۔ا نہوں نے اپنی زندگی میں اپنا صابن کا کاروبار بیٹوں کے نام ہبہ کر دیا اور باقی ترکہ کے متعلق کہا کہ اسے بطور وراثت تقسیم کر لیا جائے۔ ہم نے والد کی وفات کے بعد بہنوں کو ان کے حصے سے زیادہ دے دیا تاکہ کاروبار سے محروم رہنے کی تلافی ہو جائے۔ کیا ہمارے والد مرحوم کا اقدام اور ہمارا عمل کتاب و سنت کے مطابق ہے؟
|