صرف حج کیا ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ تم اپنی ہمشیرہ کو مقام تنعیم لے جاؤ تا کہ وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرے۔‘‘[1]
ہمارے رجحان کے مطابق اگر کسی عورت کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ مقام تنعیم سے عمرہ کر سکتی ہے۔ وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی عمومی اجازت محل نظر ہے کیوں کہ ان کے ہمراہ عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما بھی تھے، انہوں نے اس ’’اجازت‘‘ سے فائدہ نہیں اٹھایا اور وہ بغیر احرام کے واپس آئے تھے، انہوں نے عمرہ نہیں کیا، لہٰذا عمرہ کرنے والوں کو چاہیے کہ جب وہ عمرہ سے فارغ ہو جائیں تو وہ اپنا زیادہ وقت بیت اللہ میں گزاریں اور طواف کرتے رہیں کیوں کہ یہ سعادت دوسرے کسی مقام پر حاصل نہیں ہوتی۔ اگر طواف کرتے کرتے تھک جائے تو بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرے یا اذکار میں مصروف ہو جائے۔ مقام تنعیم سے جو مروجہ عمرے کیے جاتے ہیں وہ انتہائی محل نظر ہیں۔ اگر عمرہ کرنا ہے تو اس کے لیے نیا سفر کیا جائے اور میقات پر جا کر احرام باندھے اور عمرہ کرے۔ واللہ اعلم
مقروض کے لیے حج کی ادائیگی
سوال: میرے پاس اتنا سرمایہ موجود ہے کہ میں حج کر سکتا ہوں، لیکن میں مقروض ہوں، کیا ایسے حالات میں مجھے قرض اتارنا چاہیے یا حج کرنا ضروری ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی کریں۔
جواب: قرض کے متعلق بہت سخت وعید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں دعا کیا کرتے تھے:
’’اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرض سے اس قدر پناہ کیوں طلب کرتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو بات بات پر جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘[2]
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لینے کو ’’خود کشی‘‘ قرار دیا ہے۔[3]
ہمارے رجحان کے مطابق اگر انسان کے پاس اس قدر مال موجود ہو کہ اس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے تو اسے سب سے پہلے قرض ادا کرنا چاہیے، قرض کی موجودگی میں مال دار آدمی حج کے لیے صاحب استطاعت نہیں۔ اگر اس کا قرض کاروباری ہے، جس میں آئی چلائی ہوتی رہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حج بیت اللہ کے لیے اسے رکاوٹ نہ بننے دے۔ اس کے علاوہ اگر اس نے گھریلو ضروریات کے لیے قرض لیا ہے اور وہ اس کے پاس موجود مال سے بہت کم ہے یعنی وہ بچے ہوئے مال سے حج
|