یعنی کم سنی میں نکاح ہونے کے بعد اگر طلاق ہو جائے تو ایسی بچی کی عدت بھی تین ماہ ہے، اس سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صغر سنی میں نکاح جائز ہے۔ ہاں اگر بالغ ہو کر بچی اس نکاح پر راضی نہ ہو تو شریعت نے خیار بلوغ کے ذریعے اسے خلاصی کا حق دیاہے۔ لیکن یہ خیار بلوغ عرصہ دراز تک قائم نہیں رہتا، بلکہ اگر کوئی نابالغ بچی اپنے سرپرست کے کیے ہوئے نکاح کو ناپسند کرتی ہے تو اسے چاہیے کہ سن تمیز و شعور کو پہنچتے ہی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے، بصورت دیگر طرفین کی خاموشی سے رضامندی ہی تصور ہو گی اور خیار بلوغ ساقط ہو جائے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ صرف خیار بلوغ کے استعمال سے نکاح فسخ نہیں ہوتا بلکہ اس سلسلہ میں عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اگر عدالت تک رسائی نہ ہو تو سرکردہ آدمیوں پر مشتمل پنچائیت میں اپنا معاملہ پیش کر دیا جائے جب تک اپنی ناپسندیدگی کے اظہار کے بعد عدالت یا پنچائیت فیصلہ نہ کرے نکاح فسخ نہیں قرار دیا جا سکتا، کیوں کہ اس کے حق کو لازم کرنے اور فریق ثانی کو اس کے حق سے محروم کر دینے کا اختیار صرف عدالت یا اس کے قائم مقام کو ہے۔ واللہ اعلم!
ولیمہ کی شرعی حیثیت
سوال: ولیمے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کی مقدار کے متعلق بھی وضاحت کریں۔نیز بتائیں کہ ولیمہ نکاح کے فوراً بعد کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے میاں بیوی کو اکھٹا ہونا ضروری ہے، کتاب و سنت کے مطابق جواب دیں۔
جواب: ولیمے کا لغوی معنی اجتماع ہے لیکن اس سے مراد میاں بیوی کا جمع ہونا ہے، اس اعتبار سے ولیمہ، شادی کے بعد کی دعوت کے لیے استعمال ہوتا ہے، عمومی طور پر کسی دوسری ضیافت کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ولیمے کے متعلق درج ذیل حدیث پیش کی جاتی ہے:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے اوپر زرد رنگ کی خوشبو تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کتنا مہر دیا ہے؟ عرض کیا ایک گٹھلی کی مقدار سونا بطور حق مہر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح کرنے والے کو ولیمہ کا اہتمام کرنا چاہیے لیکن یہ اہتمام اس کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مالی حیثیت اگر اچھی ہے تو کم از کم ایک بکری ضرور ذبح کی جائے، اگر مالی حیثیت مستحکم نہیں تو اس سے کم کا ولیمہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر صرف کھجور اور ستو سے ولیمہ کیا تھا۔[2]
ولیمے کے اہتمام میں اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ نکاح کا اعلان عام ہو جائے، اس کا وقت کیا ہے؟ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ رخصتی کے بعد کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح
|