سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا میں دوران سفر روزہ رکھ لوں؟
کیوں کہ یہ صاحب بہت روزے رکھا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری مرضی ہے اگر چاہے تو رکھ لے اگر چاہے تو چھوڑ دے۔‘‘[1]
جب روزہ رکھنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو دوران سفر روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔
٭ دوران سفر روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو اور نیکی کے کاموں میں رکاوٹ کا موجب ہو تو ایسے انسان کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔
جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم میں سے کچھ روزے دار تھے اور بعض حضرات نے روزہ چھوڑ رکھا تھا۔ آخرکار روزے دار نڈھال ہو کر گر پڑے اور روزہ چھوڑنے والوں نے خیمے لگائے اور سواریوں کے لیے پانی کا بندوبست کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا:
’’آج تو روزہ چھوڑنے والے اجر و ثواب لینے میں بازی لے گئے۔‘‘[2]
٭ روزہ ناقابل برداشت حد تک گراں ہو جو ہلاکت تک لے جائے تو ایسے حالات میں روزہ رکھنا حرام اور چھوڑ دینا واجب ہے۔
جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کراع الغیم مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی حالت کو دیکھ کر برسر عام روزہ افطار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ ابھی تک روزہ سے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ ان الفاظ کو دہرایا۔[3]
ایسے حالات میں دوران سفر روزہ چھوڑ دینا ضروری ہے۔ واللہ اعلم
بھول کر کھانے والے کو یاد دلانا
سوال: روزہ دار اگر بھول کر کھا لے تو کیا اس کا روزہ صحیح ہے؟ سنا ہے کہ اگر روزے دار بھول کر کوئی چیز کھانے یا پینے لگے تو اسے منع نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اسے اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: روزہ کی حالت میں بھول کر کھانے پینے سے روزہ خراب نہیں ہوتا لیکن جب اسے یاد آئے تو فوراً رک جانا چاہیے اور منہ میں جو کچھ ہو اسے بھی پھینک دینا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو روزہ دار بھول کر کھا پی لے تو اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے کیوں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘[4]
ویسے بھی بھول کر ممنوع فعل کے ارتکاب پر انسان سے مؤاخذہ نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|