گئے، ایسی حالت میں ان کی وراثت کا کیا حکم ہے؟
جواب: ایک سے زیادہ رشتہ دار کسی حادثہ میں اجتماعی طور پر فوت ہو جائیں اور ایک دوسرے کی موت کے متعلق علم نہ ہو سکے کہ پہلے کون فوت ہوا ہے اور بعد میں کس کی موت آئی، تو ایسی صورت میں مرنے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے بلکہ ان کے زندہ ورثاء ہی ان کے وارث قرار پائیں گے۔ جس طرح حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جنگ یمامہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس میں فوت ہونے والوں کے متعلق حکم دیا کہ زندوں کو فوت شدہ کا وارث بنائیں، اور ان کو آپس میں ایک دوسرے کا وارث نہ بنائیں۔‘‘[1]
اس بناء پر صورت مسؤلہ میں بھائی، بیوی اور والدہ تو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے، البتہ جو زندہ شرعی ورثاء ہیں، ان کو وارث بنایا جائے گا اور ان کا ترکہ انہی میں تقسیم ہو گا۔ (واللہ اعلم)
مسئلہ وراثت
سوال: میرے ایک عزیز فوت ہوئے ہیں، پسماندگان میں سے بیوہ، مادری بہن، بھانجا اور چچا کا بیٹا زندہ ہے۔ اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ کیا بھانجا بھی اس تقسیم میں حق دار ہوگا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: مرحوم کی اولاد نہیں اس لیے اس کی بیوہ کو کل جائیداد سے چوتھا حصہ ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾[2]
’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کا تمہارے ترکہ سے چوتھا حصہ ہے۔‘‘
مرحوم کی مادری بہن کو کل ترکہ سے چھٹا حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾[3]
’’اور اگر وہ مرد یا عورت بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی یا بہن کو چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جملہ مفسرین اہل علم کا اتفاق ہے کہ مذکورہ بہن بھائی سے مراد مادری بہن بھائی ہیں، کیوں کہ حقیقی یا پدری بہن بھائیوں کا ذکر اس سورت کے آخر میں آ رہا ہے۔
مقررہ حصہ لینے والوں کے حصے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ چچا کے بیٹے کو ملے گا، جیسا کہ حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘[4]
|