اس آیت میں اختلافات رکھنے کی تردید کی گئی ہے اور سختی سے ان سے منع کیا گیا ہے، لیکن ہمارے مذہبی طبقے اس اختلاف کو ایک بے اصل حدیث کے ذریعے باعث رحمت قرار دے رہے ہیں۔ فالی اللّٰه المشتکیٰ!
بہرحال ہمیں حکم ہے کہ ہم کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور مذہبی اختلافات کو ختم کر کے ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔ نیز مذکورہ حدیث کے سہارے اپنے اختلافات پر ڈٹے رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
بچے کو دودھ پلانے کی حیثیت
سوال: اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا ہے، اب ہمارے گھر میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ آیا ماں کو ضروری ہے کہ وہ نومولود کو دودھ پلائے یا فیڈر کے ذریعے کوئی دوسرا دودھ بھی پلایا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جب کوئی عورت کسی کے عقد میں ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نومولود کو دودھ پلائے۔‘‘
اس کے متعلق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام کی بات انتہائی وزنی معلوم ہوتی ہے،ہاں اگر میاں بیوی دونوں اس بات پر اتفاق کر لیں کہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلایا جائے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ اہل عرب کے ہاں اس کا رواج تھا۔ لیکن اگر خاوند اپنی بیوی کو دودھ پلانے کا پابند کرتا ہے تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس کی پابندی کرے۔[1]
قرآن و حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیوی اپنے بچے کو دودھ پلائے اور بلاوجہ اس سے گریز نہ کرے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ﴾[2]
’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی عذر مانع نہیں تو نومولود کو ضرور دودھ پلانا چاہیے، ہاں اگر اسے دودھ نہیں آیا یا دودھ تو ہے لیکن وہ مضر صحت ہے تو اس صورت میں وہ معذور ہے۔ اگر والدہ بلاوجہ اپنا دودھ نومولود کو نہیں پلاتی تو اللہ تعالیٰ اس حکم عدولی پر ناراض ہوتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت سخت وعید سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں ایک دن سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے مختلف مناظر دکھانے کے لیے لے گئے، میں نے چند عورتوں کو دیکھا، جن کی چھاتیوں کو سانپ ڈس رہے ہیں، میں نے دریافت کیا یہ کون سی عورتیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنا دودھ اپنے بچوں کو نہیں پلاتی تھیں۔‘‘[3]
|