جواب: یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بے اصل ہے، اس کی کوئی سند کتب حدیث میں نہیں پائی جاتی۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کے متعلق لکھا ہے: ’’لا اصل لہ بہذا اللفظ‘‘[1]
یہ حدیث بالکل بے اصل ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دوسری روایت بایں الفاظ مروی ہے: عبداللہ بن سعید صنابحی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سیدنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی مجلس میں تھے کہ حاضرین نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحاق علیہ السلام کا تذکرہ کیا۔ کچھ کہنے لگے کہ ذبیح سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ جبکہ بعض کا اصرار تھا کہ ذبیح سیدنا اسحاق علیہ السلام ہیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’میرے پاس اس کے متعلق معلومات ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اس دوران ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا، یا رسول اللہ! میں اپنے پیچھے بنجر زمین اور خشک پانی چھوڑ کر آیا ہوں، حیوانات خشک سالی کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں اور اہل وعیال بھی تباہ و برباد ہو رہے ہیں، اے اللہ کی راہ میں دو قربان ہونے والوں کے بیٹے! (ابن ذبیحین) مجھے کچھ مال دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور اس کی بات کا انکار نہیں کیا۔‘‘ ہم نے یہ سن کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا، اے امیرالمومنین! ذبیحان سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کو چاہ زمزم کھودنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر یہ کام آسانی سے پورا ہوگیا تو میں اپنے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح کروں گا۔ جب کام مکمل ہوگیا تو قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کریں؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے نام قرعہ نکالا۔ انہوں نے اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ننھیال نے انہیں منع کیا اور کہا کہ آپ اس کا فدیہ دے کر اپنے رب کو راضی کر لیں۔ چنانچہ سردار عبدالمطلب نے ایک سو اونٹ بطور فدیہ ذبح کیے۔ ایک تو عبداللہ ذبیح اللہ اور دوسرے سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہیں۔[2]
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے جبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔‘‘ [3]
نیز اس کی سند میں عبداللہ بن سعید صنابحی نامی راوی مجہول ہے۔[4] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔[5] الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ابن ذبیحین ہونے کی روایت ثابت نہیں بلکہ انتہائی کمزور ہے، اس پر محدثین کرام نے جرح کی ہے۔ واللہ اعلم
کفار کے ساتھ مشابہت
سوال: احادیث میں کفار کے ساتھ مشابہت کو حرام قرار دیا گیا ہے، اس مشابہت کی کیا حدود ہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
|