چنداں حرج نہیں۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ [1]
اس سے بعض اہل علم نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی اپنے خویش و اقارب میں دفن ہونے کی وصیت کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ صورتوں میں میت کو دوسری جگہ منتقل کرنا محل نظر ہے۔
جیسا کہ سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جب مکہ سے دور حبشی مقام پر فوت ہوئے تو انہیں مکہ میں دفن کیا گیا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’اگر میں وفات کے وقت وہاں موجود ہوتی تو انہیں وہاں ہی دفن کر دیا جاتا، انہیں مکہ نہ لایا جاتا۔‘‘[2]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جہاں کوئی فوت ہوتا اسے وہیں دفن کر دیا جاتا تھا۔ مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ سے باہر
فوت ہونے والوں کو مقدس مقامات (مدینہ اور مکہ) میں دفن کرنا ثابت نہیں، علاوہ ازیں میت کو جلدی دفن کرنے کا حکم ہے، میت کی منتقلی ، اس حکم کی تعمیل میں رکاوٹ کا باعث ہے پھر اس پر جو مالی اخراجات آتے ہیں وہ اس پر مستزاد ہے۔ واللہ اعلم!
قبرستان میں مسجد بنانا
سوال: قبرستان میں مسجد بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر پرانی قبروں کو نیست و نابود کر کے مسجد بنائی جائے تو کیا وہاں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی نماز ادا کرنے کے متعلق حکم دیا ہے کہ اسے اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔‘‘ [3]
اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ قبرستان نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، جب قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی تو وہاں مسجد بنانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے، اس امر کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمین، تمام کی تمام مسجد ہے، سوائے حمام اور مقبرہ کے۔‘‘[4]
اس حدیث کا مطلب ہے کہ قبرستان میں مسجد نہیں بنائی جا سکتی، قبرستان میں قبر کے آس پاس نماز پڑھنے کا معاملہ بہت حساس ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بزرگ یا نبی کی قبر کے پاس مسجد بنانے سے منع کیا ہے۔ مبادا لوگ یہ خیال کریں کہ مدفون ہستی کی برکات اور اس کے فیوض کی بناء پر یہاں نماز پڑھنا افضل ہے اور یہ بات شرک کے لیے ایک چور دروازہ کھولتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
|