حق دار فوت شدہ بیٹے کا حصہ
سوال: ایک آدمی فوت ہوا، اس کے پسماندگان میں تین بیٹے تھے، ابھی جائیداد تقسیم ہونی تھی کہ ایک بیٹا فوت ہو گیا، فوت شدہ بیٹے کی آگے اولاد موجود ہے، باقی دو بیٹوں نے جائیداد پر قبضہ کر لیا ہے وہ اپنے بھتیجوں کو ان کے باپ کا حصہ نہیں دیتے جو فوت ہو چکا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: شریعت کا تقاضا ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کی متروکہ جائیداد حق دار ورثاء میں تقسیم کر دی جائے، وہ تین مراحل سے گزر کر ورثاء میں تقسیم کے قابل ہو گی۔
٭ اگر میت کے کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو ترکہ سے مناسب طریقہ سے اس کا انتظام کیا جائے۔
٭ میت کے ذمے جتنا بھی قرض ہو اس کی ادائیگی کی جائے خواہ تمام جائیداد صرف ہو جائے۔
٭ میت کی جائز وصیت کو شرعی حد تک پورا کیا جائے۔
باقی ماندہ جائیداد کو ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ ورثاء کی تین اقسام حسب ذیل ہیں:
٭ جن ورثاء کے حصے کتاب و سنت میں متعین ہیں، انہیں اصحاب الفرائض کہا جاتا ہے۔
٭ جن قریبی رشتے داروں کے حصے متعین نہیں بلکہ وہ بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں انہیں عصبات کہا جاتا ہے۔
٭ وہ قریبی رشتہ دار جو اصحاب الفرائض یا عصبات نہ ہوں انہیں ذوی الارحام کہتے ہیں۔
صورت مسؤلہ میں فوت ہونے والے کے تین بیٹے تھے جو عصبات ہیں اور باپ کی پوری جائیداد کے وارث ہیں۔ باپ کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ایک ایک حصہ ہر بیٹے کو دیا جائے گا۔ بہتر تھا کہ باپ کی جائیداد کو وفات کے بعد فوری طور پر تقسیم کر لیا جاتا تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ ہو،لیکن بوجہ ایسا نہیں ہوا، اس دوران ایک بیٹا فوت ہو گیا جس کی آگے اولاد ہے، اب چونکہ فوت ہونے والا بیٹا باپ کی وفات کے وقت زندہ تھا، اس لیے وہ باپ کی جائیداد میں دوسرے بیٹوں کے ہمراہ برابر کا حصے دار ہے، اس کے فوت ہونے کے بعد اس کا حصہ اس کی اولاد کو دے دیا جائے۔ عدل و انصاف اور شریعت کا تقاضا یہی ہے۔ دوسرے بیٹوں کا اس کے حصہ پر قبضہ کر کے اپنے بھتیجوں کو اس سے محروم کرنا شرعاً درست نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاوَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا﴾[1]
’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں، اور وہ عنقریب دوزخ میں جائیں گے۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر متوفی کے بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فوت شدہ بھائی کا حصہ اپنے یتیم بھتیجوں کو بخوبی ادا
|