ہے، دعا کا نتیجہ اگر سامنے نہ آئے تو عبادت رائیگاں نہیں ہوتی، دعا کی قبولیت کے چند ایک مدارج حسب ذیل ہیں:
٭ تقرب الٰہی کے ساتھ وہ شرف قبولیت سے نوازی جاتی ہے اور اس کا مقصود مل جاتا ہے۔
٭ مقصود نہیں ملتا بلکہ دعا کی برکت سے کسی شر یا مصیبت کو دور کر دیا جاتا ہے۔
٭ اس دعا کے اجر و ثواب کو روز قیامت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے ہاں محفوظ کر لیتے ہیں۔ (اس کی صراحت ایک حدیث میں بھی ہے۔) [1]
بہرحال جو انسان ایمان و یقین کے ساتھ اللہ سے دعا کرتا ہے وہ کسی خسارے میں نہیں رہتا، البتہ شرف قبولیت کے لیے کچھ آداب و شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔ اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا جائز نہیں۔
٭ دعا کرتے وقت حد سے تجاوز نہ کرے اور ایسی دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو۔
٭ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کی جائے کیوں کہ ایسی چیزیں شرعاً حلال نہیں ہے۔
٭ دعا کرتے وقت کسی قسم کی بدعقیدگی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
٭ دعا کرنے والے کا لبا س اور کھانا پینا مال حلال سے ہو، مال حرام بھی قبولیت دعا کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے۔
قبولیت دعا کے لیے ایسے اوقات کا انتخاب کیا جائے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کی ہے کہ ان میں دعا قبول ہوتی ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
٭ اذان اور اقامت کے درمیان ٭ بارش کے وقت
٭ فرض نماز کے بعد ٭ دوران سجدہ
خاص طور پر رات کے آخری حصہ میں بھی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، تہجد کا اہتمام کیا جائے اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ واللہ اعلم!
فوت شدہ کو مرحوم و مغفور کہنا
سوال: آج کل اخبارات میں فوت شدگان کے لیے مرحوم و مغفور کے الفاظ لکھے جاتے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جنتی ہیں، کیا ایسا لکھنا یا کہنا جائز ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: مرنے والے کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے، ہاں اگر قرآنی آیت یا صحیح حدیث سے ہمیں کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم ہو جائے تو الگ بات ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم نے ابو لہب کے جہنمی ہونے کا قطعی فیصلہ کیا ہے، اسی طرح احادیث میں عشرہ مبشرہ کو جنتی ہونے کی
|