باعث لعنت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔[1]
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان جانے کی اجازت دی تو یہ اجازت مردوں اور عورتوں تمام کے لیے تھی۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! زیارت قبر کے موقع پر کیسے دعا کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس معروف دعا کی تعلیم دی جو قبرستان کی زیارت کے موقع پر پڑھی جاتی ہے۔[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی قبرستان کی زیارت کر سکتی ہیں، تاہم عورتوں میں صبر و ضبط بھی کم ہوتا ہے اس لیے یہ اجازت دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔
٭ کبھی کبھار جائیں، ہر روز زیارت سے اجتناب کریں۔
٭ ٹولیوں کی شکل میں نہ جائیں۔
چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔[3]
آخری آرام گاہ
سوال: قبرستان میں قبر پر جو کتبے لگے ہوتے ہیں، ان پر آخری آرام گاہ لکھا ہوتا ہے، کیا قبر واقعی انسان کے لیے آخری آرام گاہ ہے؟ کیا اس طرح کے الفاظ لکھنے یا کہنے جائز ہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کر کے آخرت کی کامیابی حاصل کرے، انسان اپنی حیات مستعار کے دن پورے کر کے بالآخر عالم آخرت کو سدھار جاتا ہے۔ سفر آخرت کی پہلی منزل قبر ہے جسے عامۃ الناس آخری آرام گاہ سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ یہ آخری نہیں بلکہ منزل مقصود کا پہلا نشان منزل ہے۔ البتہ اس میں انسان کو اپنی کامیابی یا ناکامی کا پتہ چل جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’قبر، جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔‘‘[4]
قبر کے آرام گاہ ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ہمیں تو اس کے احکام کی بجا آوری کرنا ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کر کے اُسے خود پر نافذ کرتا ہے۔ اس کے متعلق امید کی جا سکتی ہے کہ قبر اس کے لیے آرام گاہ ہو لیکن پورے وثوق سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ واقعی اس کے لیے آرام گاہ ہی ہے۔ قبر کے بعد جنت تک پہنچنے کے لیے مزید منازل
|