’’ایمان والو! ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ تمہارا لین دین باہمی رضا مندی سے ہونا چاہیے۔‘‘
باطل طریقوں سے مراد وہ طریقے ہیں جو خلاف حق اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں اور باہمی رضا مندی سے مراد بھی کسی دھوکے، دباؤ اور فریب پر بھی رضا مندی نہیں بلکہ آزادانہ اور معروف معنی میں جائز رضا مندی ہے جو صورت مسؤلہ میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہاؤسنگ سکیم والوں کو چاہیے کہ اتنی ہی درخواستیں وصول کریں جتنے پلاٹ ہوں، زیادہ درخواستیں وصول کر کے قرعہ اندازی کا ڈھونگ رچا کر مال کھینچنا شرعاً ناجائز ہے۔ واللہ اعلم!
ٹھیکے پر زمین دینا
سوال: اگر کوئی شخص اپنی زمین کسی معین اجرت کے بدلے ٹھیکے پر دیتا ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ میں نے کسی عالم سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مزارعت کی دو صورتیں حسب ذیل تھیں:
۱: زمین کو چند شرائط کے ساتھ بٹائی پر دیا جاتا تھا، پھر پیداوار کو تقسیم کر لیا جاتا تھا۔
۲: زمین کو ایک معین اجرت پر ٹھیکے پر دے دیا جاتا اور ٹھیکے پر لینے والا اس کی جملہ پیداوار اٹھاتا۔
یہ دونوں صورتیں رائج تھیں، البتہ ناجائز صورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا تھا۔ مثلاً زمین کا مالک پانی کے راستوں، چھوٹی نالیوں کے کناروں اور برساتی نالوں کے سرے پر واقع زمین کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص کر لیتا، اس ظالمانہ صورت سے منع کیا گیا اور ان صورتوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا جن میں حصے متعین اور محفوظ ہوتے تھے یا پھر بٹائی پر دینے کی بجائے نقدی کے عوض زمین دینے کی تلقین فرمائی تاکہ کسی فریق پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ بہرحال زمین دینے کا معاملہ کھلا، شفاف، واضح اور شریعت کی شرائط کے مطابق ہے تو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں، ٹھیکے پر زمین دینے کی متعدد احادیث میں صراحت ہیں۔
سیدنا حنظلہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر دینے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘[1]
ایک دوسری حدیث میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین آدمی ہی زمین کاشت کرنے کے اہل ہیں۔ ایک وہ جسے کوئی زمین بطور ہبہ دی گئی ہو اور وہ اسے کاشت کرے۔ دوسرا وہ جس کی اپنی زمین ہو وہ اسے کاشت کرے۔ تیسرا وہ شخص جو زمین کو سونے چاندی (نقدی) کے عوض پر ٹھیکے پر لے اور اسے کاشت کرے۔‘‘[2]
اس سلسلہ میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیکے پر زمین دینے سے منع کیا ہے۔[3]
اس روایت میں عیسیٰ بن سہل نامی ایک راوی ہے جسے ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، دیگر محدثین نے اس کی توثیق نہیں
|