٭ وہ چیز بھی مرنے والے کا ترکہ شمار ہو گی جو اس کی ملکیت میں مرنے کے بعد شامل ہوئی لیکن اس کا سبب ملک اس کی زندگی میں قائم ہو چکا تھا۔ جیسے ایک شخص نے حکومت کی کسی سکیم کے تحت پلاٹ لینے کے لیے درخواست دی جو بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہونے تھے، مرنے کے بعد قرعہ اندازی ہوئی تو اس کے نام پلاٹ نکل آیا، وہ پلاٹ بھی اس کا ترکہ شمار ہو گا کیوں کہ اس کا سبب یعنی درخواست اپنی زندگی میں دے چکا تھا۔
٭ شادی شدہ بیٹی کے فوت ہونے کے بعد اس کا جہیز، حق مہر اور شادی کے موقع پر ملنے والے تحائف وغیرہ اس کا ترکہ شمار ہوں گے،و الدین کا اس کے تمام مال پر قبضہ کر لینا یا والدین کا جہیز کو دوسری بچی کی شادی کے لیے رکھ لینا شرعاً جائز نہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر والدین نے بچی کو جہیز وغیرہ دیا ہو تو اس کے عوض بچی کو جائیداد سے محروم کرنا جائز نہیں۔
درج ذیل چیزوں کا ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
٭ بیمہ زندگی شرعا ناجائز ہے، مرنے کے بعد کمپنی کی طرف سے ملنے والی رقم ترکہ میں شمار نہیں ہو گی کیوں کہ بیمہ جوئے کے حکم میں ہے، البتہ میت کی طرف سے ادا کردہ رقم اس کا ترکہ شمار ہو گی، جو ورثاء باہم تقسیم کرنے کے مجاز ہوں گے۔
٭ ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ مال بھی ترکہ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً چوری، رشوت یا خیانت کے ذریعے حاصل کیا ہوا مال۔ اسی طرح سود کی رقم بھی ترکہ میں شمار نہیں کی جائے گی۔
٭ میت کی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور اس نے اس قدر مال نہیں چھوڑا کہ اسے ادا کر کے گروی شدہ چیز کو واگزار کرایا جا سکے تو ایسی چیز بھی ترکہ میں شمار نہیں کی جائے گی۔
٭ ایسا مال جو میت کو حاصل ہوا لیکن شریعت نے اس پر مال ہونے کا حکم نہیں لگایا جیسے ذخیرہ شراب وغیرہ، اس قسم کے مال کو بھی ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
بہرحال ترکہ کے لیے وراثت میں ملنے یا محنت سے کمانے کی تفریق صحیح نہیں، مرنے کے بعد میت نے جو کچھ بھی چھوڑا ہے، اسے ترکہ میں شمار کیا جائے گا۔ (واللہ اعلم)
ایک مسئلہ وراثت
سوال: ایک شخص کو 8 کنال رقبہ وراثت میں ملا اور ۸ کنال اس نے خود خریدا۔ خرید کردہ رقبہ اپنے بڑے بیٹے کے نام کر دیا، اب وہ فوت ہو گیا ہے اور اس کی دو بیویاں ہیں، ایک لا ولد ہے اور دوسری بیوی سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ ہیں، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟
جواب: پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مرنے کے بعد جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں ہے،ا سے ترکہ میں شمار کیا جائے گا۔ کفن دفن، ادائے قرض اور نفاذ وصیت کے بعد وہ سب شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا۔ وہ جائیداد اسے وراثت میں ملی ہو یا اس
|