جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ خواہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ، ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔‘‘ [1]
اس آیت کی رو سے بھی بیوہ کو اس کا حصہ دیا جائے۔ اسے مکان سے بے دخل کر کے خاوند کی جائیداد سے محروم کرنا دور جاہلیت کا طریقہ ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
زندگی میں تمام جائیداد کسی کو دینا
سوال: میرے سسر نے اپنی زندگی میں ایک مکان میری ساس کو دیا تھا، اس نے اپنی زندگی میں وہ مکان جو اس کی کل جائیداد ہے اپنے دونوں نواسوں کے نام لگوا دیا یعنی میرے دو بیٹوں کو دے دیا۔ میں نے وہ مکان فروخت کر کے اپنا قرض اتارا ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنی بیوی کو بھی اعتماد میں لیا تھا، کیا میرا یہ اقدام کتاب و سنت کے مطابق ہے؟ جبکہ میری ساس فوت ہو چکی ہے۔
جواب: اگرچہ صاحب جائیداد اپنی مملوکہ چیزوں کے متعلق تصرف کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتا ہے، لیکن اسے شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ شرعی طور پر وہ اپنی جائیداد اپنے موجودہ ورثاء میں بطور وراثت تقسیم کرنے کا مجاز نہیں، کیوں کہ مالی وراثت کا حق اس وقت بنتا ہے جب مورٔث فوت ہوجائے اور ان ورثاء پر تقسیم ہوتا ہے جو اس کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوں۔ نیز اپنی کل جائیداد کسی ایک عزیز کو دینا تو کجا وہ فی سبیل اللہ بھی دینے کا مجاز نہیں۔ جیسا کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی جب توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے عرض کیا: ’’اللہ کے رسول! یہ میری توبہ کا حصہ ہے، کہ میں اپنے تمام مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر کے اس سے خود دستبردار ہو جاؤں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا کہ کچھ نہ کچھ اپنے لیے روک لو۔‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی کے کل چھ غلام تھے جو اس نے اپنی زندگی میں آزاد کر دئیے گئے۔ ورثاء کی شکایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت برا بھلا کہا۔ [3]
صورت مسؤلہ میں سائل کی خوش دامن کا یہ اقدام جو اس نے اپنے نواسوں کے متعلق اٹھایا ہے وہ درست نہیں تھا۔ وہ اس کی اکلوتی بیٹی کا حق ہے کیوں کہ اس کے دیگر ورثاء موجود نہیں ہیں۔اب سائل نے اس کی مشاورت سے اسے فروخت کر دیا ہے اور اس سے اپنا قرضہ اتارا ہے۔ چونکہ اپنی بیوی کو اعتماد میں لے کر یہ کام کیا ہے لہٰذا یہ اقدام صحیح اور درست ہے۔ واللہ اعلم!
|