جواب: سوال میں بیان کردہ صورت حال کے پیش نظر جو نمازی بعد میں شامل ہوئے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی فوت شدہ نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑے ہوچکے ہیں ان کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں، یعنی وہ اپنی نماز علیحدہ طور پر بھی مکمل کر سکتے ہیں اور دوبارہ امام کی اقتداء میں واپس آسکتے ہیں۔
ان دونوں صورتوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اس کی اقتداء سے آزاد ہوچکے ہیں، لہٰذا وہ اپنی انفرادی نماز کی نیت سے اپنے طور پر اپنی نماز مکمل کرلیں۔ شریعت میں اس امر کی دلیل موجود ہے کہ اگر مقتدی کسی شرعی عذر کی وجہ سے امام سے الگ ہو کر اپنی نماز مکمل کر لیتا ہے تو اس کی گنجائش ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھتے پھر فراغت کے بعد واپس آکر اپنی قوم کی امامت کراتے اور لمبی لمبی سورتوں کی قراء ت کرتے۔ ایک دیہاتی نے اس صورت حال سے تنگ آکر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی اقتداء کو ختم کر کے اپنی الگ نماز پڑھ لی۔ جب معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہا لیکن اس دیہاتی سے کچھ نہیں فرمایا۔‘‘[1]
اس حدیث کی بناء پر مسبوق حضرات جب امام کے سلام پھیرنے کی وجہ سے آزاد ہوچکے ہیں تو انہیں اپنی انفرادی طور پر نماز مکمل کر لینے کی اجازت ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔
٭ ان کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ دوبارہ امام کی اقتداء میں واپس آجائیں اور امام کی اقتداء میں اسے مکمل کر لیں۔ چنانچہ محدث العصر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے کہ وہ امام کی اقتداء کی نیت کر سکتا ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔[2]
جس طرح دوسرے لوگ امام کے سلام پھیرنے کے بعد آزاد ہوگئے تھے اور وہ پھر امام کی اقتداء میں واپس آگئے اسی طرح مسبوق حضرات بھی واپسی کی نیت کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم
باجماعت نماز چھوڑنے کا عذر
سوال :شریعت میں کوئی ایسا عذر بھی ہے جو تندرست آدمی کے لیے نماز باجماعت چھوڑنے کا باعث ہو؟ کچھ حضرات اس معاملہ میں بہت سختی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت ہی ہوتی ہے، اکیلے نماز پڑھے تو نماز نہیں ہوتی۔
جواب: نماز باجماعت فرض ہے، بلاوجہ اسے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نابینا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ سے گزارش کی کہ مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے کیوں کہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر لانے والا کوئی نہیں جو مجھے مسجد میں نماز کے لیے لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، جب
|