کرتے ہیں، شرعی طور پر اس احتیاط کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کردیں۔
جواب: اس میں شک نہیں کہ دن غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر دینا چاہیے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب مشرقی افق سے رات سامنے آ جائے اور مغربی افق سے دن پلٹ کر غروب ہو جائے تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہو جاتا ہے، اب روزے دار کو روزہ افطار کر دینا چاہیے۔‘‘[1]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے اور مشرقی جانب سے سیاہی نمودار ہو جائے تو روزہ افطار کر دینا چاہیے، بلاوجہ احتیاط کا بہانہ بنا کر دیر نہیں کرنی چاہیے، روزہ افطار کرنے کا یہی وقت ہے، اسی میں خیر و برکت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگ جب تک افطاری کرنے میں جلدی کریں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت میں رہیں گے۔‘‘[2]
ایک حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مجھے سب بندوں سے زیادہ محبوب وہ ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے۔‘‘[3]
افطاری میں جلدی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آفتاب غروب ہونے سے پہلے یا اس کے غروب ہونے میں شک اور تردد ہونے کے باوجود روزہ افطار کر لیا جائے۔ بہر حال افراط و تفریط سے احتراز کرنا چاہیے۔ یہود و نصاریٰ کا شیوہ ہے کہ وہ روزہ افطار کرنے میں بہت تاخیر کرتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں اس امر کی صراحت ہے۔[4]
بلکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت کے لوگ اس وقت تک میرے طریقے پر گامزن رہیں گے جب تک وہ افطاری کرنے میں ستاروں کے چمکنے کا انتظار نہیں کریں گے۔‘‘[5]
صحابہ کرام کا یہ خاص وصف بیان ہوتا ہے کہ وہ افطاری میں جلدی کرتے اور سحری دیر سے کھاتے تھے۔[6]
ہمیں بھی ان کے اسوہ پر عمل کرنا چاہیے اور افطاری میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم!
رمضان کے آخری عشرہ میں تقاریر کا اہتمام
سوال: ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہوتا ہے تو شب بیداری کے نام پر تقاریر کا اہتمام کیا جاتا ہے، مختلف علماء اہل مسجد کو بیدار رکھنے کے لیے گرم جوشی سے بیان جاری رکھتے ہیں پھر ان راتوں میں کھانے اور چائے وغیرہ کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کتاب و سنت کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
|