جواب: ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو جب حجاج کنکریاں مار کر فارغ ہو جاتے ہیں تو احرام کی پابندی ختم ہو جاتی ہے، عورتوں کے پاس جانے کے علاوہ ہر چیز جائز ہو جاتی ہے۔ اگر مغرب سے پہلے پہلے طواف افاضہ نہ کر سکے تو دوبارہ احرام پہن لیا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلا شبہ ہمیں اس دن میں رخصت ہے کہ تم جب جمرہ کو کنکریاں مار لو تو حلال ہو جاؤ یعنی ہر اس چیز پر جو تم پر حرام کی گئی ہے سوائے بیویوں کے، اگر بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے شام ہو جائے تو تم پھر سے محرم ہو جاؤ گے جیسا کہ تم کنکریاں مارنے سے پہلے تھے حتی کہ اس کا طواف کر لو۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دسویں تاریخ کو شام تک حاجی طواف افاضہ نہ کر سکا تو اسے دوبارہ احرام کی حالت میں آجانا چاہیے۔
چنانچہ حضرت وہب بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے رمی جمار کے بعد احرام اتار دیا تھا لیکن مغرب کے پہلے پہلے طواف افاضہ نہ کر سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قمیص اتار دینے کا حکم دیا یعنی دوبارہ احرام پہننے کے متعلق فرمایا۔ اس امر میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ طواف افاضہ کس حد تک مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق طواف افاضہ ایام تشریق میں کر لینا چاہیے۔ اس سے زیادہ مؤخر نہ کیا جائے۔
چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دسویں تاریخ کو مکہ آئے اور طواف افاضہ اسی دن کرے، اس کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اسے چاہیے کہ ایام تشریق تک اسے کر لے، اس کے بعد تک مؤخر کرنا محل نظر ہے۔‘‘[2]
بہر حال بہتر ہے کہ حجاج کرام دسویں تاریخ کو طواف افاضہ کر لیں، بہ صورت دیگر ایام تشریق تک اسے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
عورتوں کے لیے رمل کا حکم
سوال: عمرہ اور حج کے پہلے طواف میں رمل کیا جاتا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟ کیا خواتین بھی اس طواف میں رمل کر سکتی ہیں؟ نیز بتائیں کہ یہ کہاں سے کہاں تک کرنا چاہیے؟
جواب: طواف قدوم کرتے وقت پہلے تین چکروں میں کندھے ہلا ہلا کر آہستہ آہستہ دوڑنا ’’رمل‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا آغاز یوں ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات ہجری میں عمرۃ القضاء کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین مکہ نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایسے لوگ ہیں جنہیں یثرب یعنی مدینہ طیبہ کے بخار نے کمزور و ناتواں کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا تیز چل کر اپنی قوت کا اظہار کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام رفتار سے چلیں، جب مشرکین نے انہیں دیکھا تو کہنے لگے
|