استطاعت کے باوجود اس سنت مؤکدہ سے گریز کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ جیسا کہ اس کے متعلق سخت وعید وارد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کے پاس قربانی کرنے کی گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘[1]
اگرچہ اس حدیث میں کچھ کلام ہے تاہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوف صحیح ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے شخص کو نماز عید ادا کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ مقصد اسے تنبیہ کرنا ہے تاکہ وہ قربانی جیسی سنت ترک نہ کرے۔ بہرحال قربانی واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ قربانی نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘[2]
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں: ’’میں خوشحال ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، اس اندیشہ کے پیش نظر کے مبادا میرا پڑوسی اسے ضروری خیال کرے۔‘‘[3] واللہ اعلم!
مشترکہ قربانی کرنے والوں پر پابندی
سوال: میرا خاوند فوت ہو چکا ہے، میر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، ہم سب ایک ہی گھر میں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ہر سال قربانی کرتے ہیں۔ عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی کن کن پر ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: جس مسلمان نے قربانی کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ عید کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے۔‘‘[4]
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی دوسری روایت میں ہے: ’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی دینا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے۔‘‘[5]
ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنا ہے اسے چاہیے کہ چاند نظر آنے کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے، گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک قربانی کافی ہوتی ہے، گویا وہ سب قربانی میں شریک ہوتے ہیں اور وہ قربانی کرنے والے شمار ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ قربانی کے لوازمات کو پورا کریں اور ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹیں۔ واللہ اعلم!
|