ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یمین غموس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
’’جس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال اڑایا جائے اور وہ اس میں جھوٹا بھی ہو۔‘‘ [1]
اس کی تلافی دو چیزوں سے ممکن ہے، جس آدمی کا حق غصب کیا ہے، وہ واپس کیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے صدق دل کے ساتھ معافی مانگی جائے اس پر کوئی کفارہ وغیرہ نہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنی بات میں پختگی پیدا کرنے کے لیے عزم و ارادہ کے ساتھ قسم اٹھائے، مثلاً میں فلاں کے گھر نہیں جاؤں گا، مجھے اللہ کی قسم ہے۔ اسے قسم معقدہ کہتے ہیں، اس کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ مخالف کام میں اگر کسی شرعی ضابطے کی خلاف ورزی ہو تی ہو تو اپنی قسم کوتوڑ دے اور اس کا کفارہ دے۔
جب کہ حدیث میں ہے:
’’جب تم کسی کام پر قسم اٹھاؤ پھر اگر اس کے مخالف کام کو بہتر سمجھو تو بہتر کام کر لو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔‘‘[2]
اگر کسی نے اس قسم کی قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ بھی کہہ دیا تو اس پر کفارہ نہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ دیا اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں۔‘‘[3]
صورت مسؤلہ میں سائل نے عزم و ارادہ کے بغیر قسم اٹھائی ہے لہٰذا اس میں کوئی کفارہ نہیں۔
نیز یہ قسم ماضی سے متعلق ہے، ہاں اگر مستقبل سے متعلق قسم اٹھاتا ہے اور وہ بھی اپنے دل کے عزم و ارادہ سے تو پھر قسم کا کفارہ دے کر اسے توڑا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
فحش فلمیں دیکھنے پر مجبور کرنا
سوال: میرے میاں سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں اور بلیو پرنٹ فحش فلمیں دیکھنے کے عادی ہیں اور مجھے بھی انہیں دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر میں نہ دیکھوں تو طلاق کی دھمکی دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ اور اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کریں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا ﴾[4]
’’اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی اور اولاد کو خاوند کی رعایا بنایا ہے اور ان کی نگہداشت کا حکم دیا ہے اور قیامت کے دن اسے اپنی رعایا کے متعلق جواب دینا ہوگا۔
|