’’جس نے امام کے ساتھ قیام کیا تاآنکہ امام نماز سے فارغ ہو جائے تو اس کے لیے ایک رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[1]
سحری کی دعوت
سوال: ہماری مسجد کی انتظامیہ نے رات کے وقت مسجد میں قیام کرنے والوں کے لیے سحری کے کھانے کا بندوبست کیا ہے تاکہ اللہ کے ہاں اجر و ثواب لیا جائے لیکن مقامی علماء نے اسے بدعت قرار دیا ہے اور انتظامیہ کو مجبور کر کے سحری کے بندوبست سے روک دیا ہے، کیا یہ سحری کی دعوت دینا بدعت ہے؟
جواب: رمضان المبارک میں ہر عمل خیر کا اجر و ثواب دو چند کر دیا جاتا ہے۔
چنانچہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، حدیث میں افطاری کرانے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی روزہ دار کا روزہ کھلوایا اس کے لیے روزہ دار کی مثل اجر ہے، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر سے کچھ کمی ہو۔‘‘[2]
اسی طرح کسی روزہ دار کی سحری کا بندوبست کرنا بھی اللہ کے ہاں اجر و ثواب کا باعث ہے۔
چنانچہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک میں سحری کی دعوت دیتے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’آؤ! اس مبارک کھانے کی طرف۔‘‘[3]
اسی طرح سیدنا خالد بن ہمدان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سحری کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ’’اس با برکت کھانے یعنی سحری کے لیے آؤ۔‘‘[4]
امام نسائی نے اس طرح کی دیگر احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’سحری کی دعوت دینا۔‘‘[5]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت مجھے فرمایا: ’’اے انس رضی اللہ عنہ! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، سحری کا بندوبست کرو اور مجھے کچھ کھلاؤ۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کھجوریں اور پانی کا برتن لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اے انس رضی اللہ عنہ ! کوئی آدمی دیکھو جو میرے ساتھ سحری کھائے۔‘‘
چنانچہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا لایا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی۔[6]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ افطاری کی دعوت کی طرح سحری کی دعوت دینا بھی مسنون ہے۔ صورت مسؤلہ میں
|