حالت احرام میں ہوتی تھیں، جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی چادر اپنے سر سے لٹکا کر چہرے پر ڈال لیتی اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اپنے چہروں سے چادریں اوپر کر لیتیں۔[1]
نیز فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہرے ڈھانپا کرتی تھیں اور سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما بھی ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔[2]
مستدرک حاکم میں ہے کہ ہم مردوں سے اپنے چہروں کا پردہ کرتی تھیں۔[3]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کا پردہ ضروری ہے اور یہ شرعی حجاب میں شامل ہے، کتاب و سنت، اقوال صحابہ اور اقوال علماء اسلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر مردوں کے سامنے عورتوں پر تمام جسم اور چہرے کا پردہ واجب ہے۔ نیز بہنوئی بھی غیر محرم ہے، اس سے پردہ بھی ضروری ہے خواہ خاندانی روایات اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے لیے تو حجت شریعت ہے، اس کے لیے اپنی خاندانی روایات کو چھوڑا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اظہار زینت کی اجازت صرف محرم رشتے داروں کے سامنے دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ ﴾
’’عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے سامنے۔‘‘[4]
اس آیت کریمہ میں ان محرم رشتے داروں کی فہرست ہے جن کے سامنے عورت اپنی زینت کا اظہار کر سکتی ہے، ان میں بہنوئی نہیں ہے لہٰذا اس سے بھی پردہ کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
سفید بالوں کو رنگنا
سوال: کیا داڑھی یا سر کے سفید بالوں کو رنگنا ضروری ہے؟ کچھ لوگ سفید بالوں کو یونہی چھوڑ دینے کی بہت تردید کرتے ہیں اور انہیں یہود و نصاریٰ کی علامت قرار دیتے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب: سفید بال، قابل تکریم ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلمان کا نور قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کے سفید بالوں کو اکھاڑنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ مسلمان کا نور ہے۔‘‘[5]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑے۔[6]
البتہ سفید بالوں کو رنگنا مستحب ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد گرامی کو دیکھ کر فرمایا تھا: ’’اس کے بالوں کی سفیدی کو کسی دوسرے رنگ میں تبدیل کرو لیکن سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔‘‘[7]
|