وارث کا جو حق بنتا ہے وہ پورا پورا ادا کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
والد سے اپنا شرعی حصہ طلب کرنا
سوال: میرا بیٹا جوان ہے لیکن وہ نہ پڑھتا ہے اور نہ ہی میرے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹاتا ہے، بلکہ آئے دن وہ مجھ سے اپنے شرعی حق کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، کیا مجھے اس کا وراثتی حصہ دے دینا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: جب تک انسان زندہ ہے، وہ اپنے مال کا خود مالک ہے، اور اس میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’یہ انسان اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے، وہ اسے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔‘‘[1]
اس حدیث کے مطابق باپ کو یہ حق ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے مال کو استعمال میں لائے یا کسی کو عطیہ دے، لیکن اولاد کو عطیہ دینے کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ عطیہ دیتے وقت تقسیم ضابطہ میراث کے مطابق نہیں ہو گی کیوں کہ وراثت ایک غیر اختیاری حق ملکیت ہے جو ورثاء کو اس کے مرنے کے بعد منتقل ہو جاتا ہے جبکہ یہ ابھی زندہ ہے اور اپنے اختیار وارادہ سے اپنا حق ملکیت آگے منتقل کرتا ہے۔ نیز تقسیم وراثت کی تین شرائط ہیں:
٭ میت کی موت کا یقینی ہونا ٭ میت کی موت کے وقت وارث کا زندہ ہونا
٭ وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا
زندگی میں ضابطہ میراث کے مطابق تقسیم کرنا اس لیے ناجائز ہے کہ اس میں مذکورہ بالا شرائط میں سے پہلی شرط نہیں پائی جاتی۔ نیز اگر تقسیم کرتا تو زندگی میں کسی وارث کے مرنے کی صورت میں دوسروں پر ظلم ہو گا کیوں کہ مرنے والے کو بلااستحقاق اس کا حصہ مل جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔
٭ عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد میں لڑکے اور لڑکی کا لحاظ کیے بغیر مساویانہ مال تقسیم کرے۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر باپ اپنی اولاد میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، تا آنکہ وہ عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کے برابر حصہ دے۔‘‘[2]
پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے بطوردلیل ایک حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|