فائدہ نہیں۔ ایسے مریض کے مصنوعی آلات کو ختم کر دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ خود اس کے متعلق فیصلہ کر دے۔ اس سلسلہ میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کسی متنفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘[1] بحالی صحت کی امید نہ ہونے کے باوجود اس کے سانس کی آمدورفت یا دل کی دھڑکن کو جدید آلات کے ذریعے برقرار رکھنا ہمارے نزدیک تکلیف مالا یطاق ہے اور ایک فضول حرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آزمائشوں سے محفوظ رکھے جو ہمارے دین و دنیا کے لیے نقصان دہ ہوں۔ (واللہ اعلم)
نذر کا پورا کرنا
سوال: میں نے نذر مانی تھی کہ اگر میری بیٹی امتحان میں اچھی پوزیشن سے پاس ہوئی تو میں دو ماہ کے روزے رکھوں گی، لیکن چند دن روزہ رکھنے سے معلوم ہوا کہ میں اسے پورا نہیں کرسکوں گی، اب میرے لیے شریعت میں کیا حل ہے؟ وضاحت فرمائیں؟
جواب: دین اسلام میں نذر کی دو اقسام ہیں: ٭ نذر مطلق ٭ نذر مشروط
٭ نذر مطلق یہ ہے کہ انسان کسی قسم کی شرط کیے بغیر اللہ کے لیے کام کرنے کی نذر مان لے، جیسا کہ حضرت عمران کی بیوی نے نذر مانی تھی کہ:
﴿اِنِّيْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا ﴾[2]
’’اے اللہ! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایسے بندوں کی تحسین فرمائی ہے جو اس قسم کی نذر کو پورا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ﴾
’’یہ میرے وہ بندے ہیں جو نذر پوری کرتے ہیں۔‘‘[3]
٭ نذر مشروط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے سودا بازی کرتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اللہ کے لیے یہ کام کروں گا۔ جیسا کہ صورت مسؤلہ میں مشروط نذر مانی گئی ہے۔ اس قسم کی نذر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ایسی نذر نہ مانا کرو کیوں کہ نذر تقدیر کے معاملہ میں کوئی فائدہ نہیں دیتی، البتہ اس کے ذریعے ایک بخیل سے مال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘ 4[4]
اس قسم کی نذر کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر پورا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو اتنا کفارہ دے دیا جائے جتنا قسم کا ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’نذر کا کفارہ، قسم کے کفارے کی طرح ہے۔‘‘[5]
|