کے بعد رجوع کا پروگرام بنے تو تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے۔ اس لیے بیوی کی رضامندی، سرپرست کی اجازت، حق مہر کا تعین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو عام حالات میں رجوع نہیں ہو سکے گا تا آنکہ وہ آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کرے، ملاپ کے بعد اگر وہ فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دے تو پہلے خاوند سے از سر نو نکاح ہو سکتا ہے۔
صورت مسؤلہ میں اگر خاوند نے ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ پیغام طلاق ارسال کیا ہے تو یہ ایک ہی طلاق شمار ہو گی کیوں کہ ہمارے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور اگر متعدد مجالس میں پیغام طلاق ارسال کیا ہے تو اس طرح تین طلاقیں ہی واقع ہو جائیں گی اور اب رجوع کا کوئی موقع نہیں رہا۔ (واللہ اعلم)
مسئلہ رضاعت
سوال: میری بیوی کی گود میں ایک بیٹی ہے اور وہ اسے دودھ پلاتی ہے، ہمیں ایک نومولود بچی ملی ہے، بیوی،اپنی بیٹی کے ہمراہ اسے بھی دودھ پلاتی ہے، اس کی خواہش ہے کہ نومولود بچی جب بڑی ہو جائے تو اپنے چھوٹے بھائی سے اس کی شادی کر دے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: قرآن کریم نے جہاں حرام رشتوں کا ذکر کیا ہے وہاں صراحت کی ہے کہ:
﴿وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ ﴾[1]
’’تمہاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ شریک بہنیں بھی حرام ہیں۔‘‘
حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ دودھ پینے سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔[2]
اس کی تفصیل یہ ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کی نسبی اور رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کے بھائی ہیں۔ اس عورت کا شوہر، اس کا باپ، اس کے خاوندکی بہنیں، اس کی پھوپھیاں، عورت کی بہنیں، اس کی خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور ، اس کے رضاعی چچا اور تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کے نسبی بہن بھائی، دودھ پلانے والی عورت کے گھرانے پر رضاعت کی بناء پر حرام نہیں ہوں گے۔
درج بالا تفصیل کے مطابق اگر کسی عورت نے اپنی حقیقی بیٹی کے ہمراہ کسی نومولود کو بھی دودھ پلایا ہے تو وہ اس کی رضاعی بیٹی ہو گی اور اس کا تعلق اس عورت کے تمام نسبی رشتے داروں سے قائم ہو جائے گا۔ عورت کا بھائی اس نومولود کا ماموں بن جائے گا، جس طرح نسبی طور پر ماموں، اپنی نسبی بھانجی سے شادی نہیں کر سکتا، اسی طرح وہ اپنی رضاعی بھانجی سے نکاح نہیں کر سکتا۔ اگر دودھ پلانے والی عورت کا یہ خیال ہے کہ وہ اسے اپنے چھوٹے بھائی سے بیاہ دے گی، تو ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم)
|