نکاح کی رجسٹریشن
سوال: ملکی قوانین کے مطابق نکاح کی رجسٹریشن کروائی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر شرعی نکاح کر لیا جائے اور سرکاری طور پر اس کا اندراج نہ ہو تو کیا ایسا نکاح درست نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: نکاح ایجاب و قبول کا نام ہے، اگر یہ ایجاب و قبول دو گواہوں کی موجودگی میں ہوتا ہے اور عورت نکاح پر راضی ہو اور اس کا سرپرست بھی رضامند ہو تو اسے شرعی نکاح کہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ خاوند اور بیوی میں نکاح سے مانع کوئی چیز نہ پائی جائے تو اس سے نکاح ہو جاتا ہے، سرکاری اندراج اور تصدیق شرائط نکاح سے نہیں ہے، البتہ شریعت نے ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم سرکاری احکامات کی پابندی کریں بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے مخالف نہ ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾[1]
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بات مانو اور ان حکمرانوں کا بھی کہامانو جو تم میں سے ہوں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں ’’اولی الامر‘‘ سے مراد مسلمان حکمران ہیں، ان کی اطاعت مشروط ہے۔ یعنی ان کی اطاعت صرف اس صورت میں ہو گی جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت کے خلاف نہ ہو، اگر خلاف ہے تو ان کی اطاعت نہ کی جائے۔ نکاح کی رجسٹریشن کرنا ایک حکومتی حکم ہے جو کتاب و سنت کے خلاف نہیں، لہٰذا اس کی پابندی ضروری ہے، اگرچہ اس کے بغیر شرعی نکاح ہو جاتا ہے لیکن آئندہ زندگی میں بہت سے حقوق اس سے وابستہ ہیں، نیز کئی ایک مفاسد کے سدباب کے لیے رجسٹریشن کرائی جاتی ہے۔
٭ حج و عمرہ کی ادائیگی، اگر میاں بیوی دونوں اکٹھے کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تصدیق شدہ نکاح نامہ ضروری ہے۔
٭ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے بھی مصدقہ نکاح نامہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
٭ بچوں کے نام اور اس کے اندراج کے لیے میاں بیوی کا مصدقہ نکاح نامہ دکھانا پڑتا ہے۔
٭ عورت کو اگر خاوند سے خلع لینا ہے تو عدالت میں خاوند سے نکاح کو ثابت کرنے کے لیے نکاح نامہ کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ عدالت خلع کی ڈگری جاری کر سکے۔
بہرحال نکاح کی رجسٹریشن کتاب و سنت کے خلاف نہیں، اس سے راہ فرار اختیار کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس لیے ہمارے رحجان کے مطابق شرعی نکاح کے ساتھ اس کا اندراج بھی ضروی ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے حقوق کی حفاظت ہو، اس کے علاوہ تہمت و شک سے بھی محفوظ رہ سکے۔ واللہ اعلم!
نکاح حلالہ
سوال: ہمارے معاشرہ میں کسی عورت کو اگر بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو کہا جاتا ہے کہ اب حلالہ کے بعد پہلے
|