نہیں بن سکتی اور نہ کوئی لڑکی از خود اپنا نکاح کرسکتی ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو چچا یا بھائی وغیرہ ولی بنے گا، اگر کوئی بھی نہیں ہے، تو حاکم وقت یا قاضی اس کا ولی ہو گا۔ بہرحال اسلامی تعلیمات میں بڑا توازن ہے کہ جن والدین نے لڑکی کو پالا پوسا، اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، وہ نکاح میں بنیادی کردار ادا کرنے کے حق دار ہیں، ان کی رضامندی کے بغیر لڑکی کی شادی ناجائز ہے۔ دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کیاگیا ہے، جن روایات میں بیوہ کو خودمختار کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کا انتخاب کرنے میں خودمختار ہے، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے۔
ہمارے رحجان کے مطابق صورت مسؤلہ میں جو نکاح ولی کے بغیر ہوا ہے اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر اس نکاح کے متعلق کوئی کاغذی کاروائی نہیں ہوئی ہے تو اسے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر نکاح کا باضابطہ اندراج ہوا ہے تو مستقبل میں خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے مرد سے تحریری طلاق نامہ لکھو الیا جائے، پھرجہاں والدین نکاح کرنا چاہتے ہیں اگر عورت وہاں راضی ہے تو نکاح کر دیا جائے، اس طرح وہ نکاح پر نکاح کی زد میں نہیں آئے گی۔ (واللہ اعلم)
سالی سے اپنے بیٹے کی شادی کرنا
سوال: ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، دوسری بیوی کے بیٹے سے اپنی سالی کی شادی کرا سکتا ہے یا نہیں، کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں؟
جواب: جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے قرآن مجید نے ان کی تفصیل بیان کی ہے، ان میں سے سات نسب کی وجہ سے حرام ہیں، دو رضاعت کی وجہ سے اور چار رشتہ نکاح قائم ہونے کی بناء پر حرام ہیں، ان کی تفصیل سورۃ النساء آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوئی ہے، جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں ان میں ایک خالہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری خالائیں تم پر حرام ہیں۔
صورت مسؤلہ میں اگر سالی، برخوردار کی خالہ ہے تو اس سے کسی صورت میں نکاح نہیں ہوسکتا، اگر سالی اس کی خالہ نہیں تو اس سے نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں مثلاً لڑکا ایک بیوی کے بطن سے پیدا ہواہے اور دوسری بیوی کی بہن سے اس کا نکاح ہو سکتا ہے کیوں کہ دوسری بیوی کی بہن ، باپ کی سالی تو ہے لیکن اس کے بیٹے کی خالہ نہیں ہے، لہٰذا اس نکاح کی شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے محرمات بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:
﴿ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[1]
’’ان عورتوں کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
دوسری بیوی کے بیٹے سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ بیٹا کسی پہلے خاوند سے ہو، اس صورت میں بھی پہلی بیوی کی بہن سے
|