مسافر امام کے پیچھے نماز
سوال :ہمارے ہاں مسجد میں اگر کوئی عالم دین آجائے تو امام مسجد اس کے احترام میں اسے نماز پڑھانے کے متعلق کہہ دیتے ہیں، جب کہ مہمان نے نماز قصر پڑھنا ہوتی ہے لیکن بعض نمازی اسے اچھا نہیں سمجھتے، وہ امام کو مجبور کرتے ہیں کہ خود نماز پڑھائیں، کیا مسافر کے پیچھے مقیم کی نماز نہیں ہوتی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: اگر مسجد میں کوئی عالم دین آجائے تو احترام کے پیش نظر اسے نماز پڑھانے کے لیے کہنا جائز ہے اور مقیم آدمی، مسافر کے پیچھے نماز ادا کر سکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مکہ تشریف لائے تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کو دو رکعت پڑھائیں اور فرمایا:
’’اے اہل مکہ! تم اپنی نماز مکمل کر لو، ہم تو مسافر لوگ ہیں۔‘‘[1]اس لیے مقتدی حضرات کو یہ عمل برا محسوس نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اپنے امام کو اس امر پر مجبور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی مہمان کی موجودگی میں خود ہی نماز پڑھائے۔ بہرحال امام مسجد کا عمل شریعت کے عین مطابق ہے۔ واللہ اعلم
قبل از وقت نماز ادا کرنا
سوال :اگر قبل از وقت نماز پڑھ لی جائے تو کیا وقت آنے پر دوبارہ پڑھنا ہوگی یا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز کافی ہوگی؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: شریعت نے نماز کے اوقات مقرر کیے ہیں، بلاوجہ اسے قبل از وقت ادا کرنا جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾[2]
’’بے شک نماز کا اہل ایمان پر مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘
حدیث میں ہے کہ ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔[3]
قرآنی آیت اور پیش کردہ حدیث کے مطابق اگر کسی نے وقت سے پہلے نماز ادا کی ہے تو اس سے فرض کی ادائیگی نہ ہوگی، البتہ اس نماز کو نفل شمار کیا جائے گا۔ یعنی اسے نفل کا ثواب مل جائے گا لیکن وقت ہونے کے بعد سے دوبارہ ادا کرنا ہوگا پہلی ادا شدہ نماز کافی نہ ہوگی۔ واللہ اعلم
دورانِ نماز وساوس کا آنا
سوال :مجھے دوران نماز بہت برے برے خیالات اور وسوسے آتے ہیں، کوشش کے باوجود ان سے نجات نہیں ملتی، آپ اس سلسلہ میں کوئی کامیاب علاج بتائیں تاکہ میں ان خیالات و وساوس سے محفوظ رہوں۔
|