رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘[1]
بہر حال غلاف کعبہ کو تبرک کے لیے چھونا یا اسے چومنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے محبت کی ہے۔ واللہ اعلم
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا
سوال: ہمارے ہاں کچھ مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی میں استطاعت اور وسائل ہونے کے باوجود سستی اور تاخیر کرتے ہیں۔ آخرکار وہ دیگر مصروفیات میں پھنس کر معذور ہو جاتے ہیں، ان کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حج، اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اس لیے جب کسی کے حق میں اس رکن کے واجب ہونے کی شرائط پوری ہو جائیں تو اس کا بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔ ایسے حالات میں اس شخص کااسلام ہی خطرے میں رہتا ہے جب تک وہ حج نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کی بہت تاکید کی ہے جب کہ آپ کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے کیوں کہ ممکن ہے آدمی بیمار ہو جائے یا اس کی سواری گم ہو جائے یا اسے کوئی اور ضرورت پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ حج نہ کر سکے۔‘‘[2]
ہمارے رجحان کے مطابق اگر کسی کو نیکی کا موقع ملے تو اسے جلدی ہی انجام دے لینا بہتر ہے، ممکن ہے یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، اس کے بعد دوبارہ موقع نہ مل سکے، اگر طاقت ہونے کے باوجود اسے مؤخر کر دیا جائے تو شاید آئندہ جانا ممکن نہ ہو یا زندگی میں اگلا حج نہ آئے یا حج آئے تو آدمی کو استطاعت نہ ہو۔
حج کی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ گھر سے روانہ ہونے سے لے کر واپسی تک کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو، اس میں کھانے پینے کے اخراجات بھی شامل ہیں اور سواری کا خرچہ یعنی کرایہ وغیرہ بھی، پھر اہل خانہ کے لیے بھی اس کے بعد اخراجات میسر ہوں۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے:
’’جو شخص زاد سفر اور سواری رکھتا ہے جو اسے بیت اللہ لے جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ حج نہیں کرتا تو وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی بن کر، اللہ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔‘‘[3]
اگرچہ اس حدیث کے متعلق امام ترمذی نے خود ہی کلام کی ہے اس کی سند کمزور ہے تاہم وعید کے طور پر ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں۔
|