جب استطاعت ہو اسے ادا کر دیا جائے۔ یہ قربانی کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں گھریلو ضروریات کے لیے لیا ہوا قرض جس کے متعلق قرض خواہ کی طرف سے پابندی ہوتی ہے کہ اسے عید سے قبل ادا کرنا ہے ایسے قرض کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ قربانی کی بجائے اپنا قرض اتارے۔
ہمارے رحجان کے مطابق اگر مقروض شخص قربانی جیسی عبادت کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے خزانہ غیب سے قرض اتارنے کی کوئی سبیل پیدا کر دے۔ واللہ اعلم!
جانور کو ذبح کرنا
سوال: کیا جانور ذبح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے چھری سے ہی ذبح کیا جائے، نیز اگر حلال جانور بے قابو ہو جائے تو اسے کیسے ذبح کیا جا سکتا ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
جواب: ذبح کرتے وقت دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
پہلی یہ ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے یعنی بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے۔
دوسری یہ کہ اس کا خون نکلنا اور خون نکلنے کا مقام جانور کا حلق ہے،اسے اس حد تک کاٹ دیا جائے کہ نرخرہ اور رگ گلو کھل جائے۔ ذبح کے لیے تیز دھاری دار آلے کا ہونا ضروری ہے، وہ پتھر، لکڑی اور بانس کی پھانگ وغیرہ بھی ہو سکتی ہے۔ چونکہ چھری کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے، اس لیے عام حالات میں ذبح کے وقت چھری کو ہی کام میں لانا چاہیے،اگر چھری نہ مل سکے تو کوئی بھی تیز دھاری دھار آلہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جس سے بھی خون بہہ جائے ذبح کیا جائے، خواہ وہ بانس کی پھانگ ہو یا پتھر کی دھار یا لوہے کا آلہ۔‘‘
پھر انہوں نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ مدینہ کے آس پاس ایک لڑکی بکریاں چرا رہی تھی، اس نے ایک بکری کو دیکھا جو مرنے کے قریب تھی، اس نے جلدی سے ایک پتھر توڑا اور اس کی دھار سے اسے ذبح کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دی۔‘‘ [1]
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کل ہم دشمن سے ملیں گے لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم پتھر سے یا لاٹھی کے تیز پھٹے سے ذبح کر سکتے ہیں؟
تو آپ نے فرمایا: جو چیز بھی خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھا لو۔[2]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ذبح کے لیے چھری کا ہونا ضروری نہیں بلکہ کسی بھی دھاری دار تیز آلہ سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی حلال جانور ہے بے قابو ہو جائے تو وہ شکار کے حکم سے ہے، اسے کسی مقام سے زخمی کیا جا سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے متعلق ہم جانوروں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
|