شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ واللہ اعلم
بیعت تصوف کی حیثیت
سوال :ہمارے معاشرہ میں کچھ دیندار لوگ بیعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں اور اسے ضروری قرار دیتے ہیں، اس قسم کی بیعت کے متعلق شریعت کی ہدایات معلوم کرنا چاہتا ہوں، رہنمائی فرمائیں۔
جواب: صوفیائے کرام نے جب لوگوں کی تربیت کا بیڑا اُٹھایا تو انہوں نے لوگوں کو اپنے حلقہ ارادت میں داخل کرنے کے لیے بیعت کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ان کی ہر بات کو بلا کم و کاست مانا جائے، اسے بیعت تصوف کہتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں جس کی ہر بات کو مانا جاتا ہے وہ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی شخصیت ہیں جب کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾[1]
’’ہم کسی بھی رسول کو اس لیے بھیجتے ہیں کہ اللہ کے اِذن سے اس کی بات مانی جائی۔‘‘
بیعت کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:
بیعت اسلام: جب کوئی شخص اپنا دین چھوڑ کر دین اسلام میں داخل ہونا چاہتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، دین اسلام پر کاربند رہنے کے لیے اس سے بیعت لیتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ اپنا ہاتھ پھیلائیں، میں آپ سے بیعت اسلام کرنا چاہتا ہوں۔[2]
بیعت ہجرت: اگر معاشرتی طور پر دین اسلام پر عمل ناممکن ہوتا تو مسلمانوں کے لیے وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہے تاکہ وہ ایسی جگہ چلے جائیں جہاں اسلام پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قرآن کریم میں اس کا تذکرہ ہے، اس وقت جو بیعت لی جاتی اسے بیعت ہجرت کہا جاتا ہے۔
بیعت جہاد: جو مجاہدین، جہاد میں شرکت کرنے والوں سے میدان کار زار میں ڈٹے رہنے کی بیعت لی جاتی کہ وہ کسی بھی صورت میں راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان ہوئی تھی، قرآن کریم میں بھی اس
بیعت کا ذکر آیا ہے۔
بیعت اطاعت: اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کے لیے اہل اسلام سے بیعت لی جاتی کہ وہ تنگی و خوش حالی میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے اور ان کی مخالفت سے گریز کریں گے۔ قرآن کریم کی سورۂممتحنہ آیت نمبر ۱۲ میں اس بیعت کا ذکر ہے۔
بیعت اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی، جواب ختم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے دور میں ایسا ہی رہا۔ مروجہ بیعت اگر بیعت امارت ہے تو اطاعت شریعت کے حوالے سے اس کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
|