اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عارضہ کی وجہ سے جماعت نہ پا سکے تو ایسے چند افراد کو باجماعت نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اجتماعیت اور پہلی جماعت کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے دیر سے آنے والے حضرات نماز اکیلے ہی پڑھیں، یہ موقف اپنی جگہ پر درست اور قرین قیاس ہے، لیکن باجماعت ادا کرنے کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں۔
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً بیان کیا ہے، کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں آئے جس میں نماز ادا کی جا چکی تھی تو انہوں نے وہاں باجماعت نماز ادا کی۔‘‘[1]
٭ ایک صورت یہ ہے کہ جو سوال میں بیان کی گئی ہے کہ چند نوجوان ہر روز دیر سے مسجد میں آتے ہیں اور اپنی الگ جماعت کرواتے ہیں۔ اس اقدام کو کسی صورت میں مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ ایسا کرنا جماعتی استحکام اور اجتماعیت کو توڑنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ہماری دینی مجلسوں میں دیکھا جاتا ہے کہ نماز باجماعت ہو رہی ہوتی ہے لیکن کچھ حضرات اپنے کام یا فضول باتوں میں مصروف رہتے ہیں، جب اصل جماعت ہو جاتی ہے تو وہ اپنی ’’مثنیٰ‘‘ جماعت کرواتے ہیں، بعض اوقات تو اس طرح کی متعدد جماعتیں بیک وقت ہوتی نظر آتی ہیں، اس قسم کی جماعت کو کوئی بھی صاحب بصیرت اہل علم اچھا نہیں کہے گا۔ ہمیں نماز با جماعت کی نزاکت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل علم کو چاہیے کہ وہ ایسے خام نوجوانوں کی تربیت کریں تاکہ جماعتی اتحاد پارہ پارہ نہ ہو۔ اصل جماعت کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، اصل جماعت سے دانستہ پیچھے رہنا پھر اپنی جماعت کرانا انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم!
اہل قبلہ کون ہیں؟
سوال: اہل علم عام طور پر اپنی گفتگو اور تحریر میں اہل قبلہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اس بات کی وضاحت کریں کہ اہل قبلہ سے کون لوگ مراد ہیں؟
جواب: عقیدہ طحاویہ میں اہل قبلہ کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ہم اہل قبلہ کو مسلمان اور مومن کہتے ہیں، جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اعتراف اور تصدیق کرتے رہیں گے۔‘‘
اس کی شرح میں ہے کہ اہل قبلہ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اسلام کا دعوے دار اور نماز کے لیے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے۔[2]
اس وضاحت کی بنیاد درج ذیل حدیث ہے جسے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے:
’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ ایسا مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔‘‘[3]
|